عید الفطر گزر گئی، اُمت مسلمہ نے ماہ صیام کے فرائض کا شکرانہ ادا کیا، نیل کے ساحل سے کاشغر تک خدائے بزرگ و برتر کے حضور مسلم اُمہ سربسجود ہوئی مگر ہر کلمہ گو کے روح و قلب درد و دُکھ سے بوجھل تھے کہ قبلۂ اول ظالم صہیونیوں کی ناپاک سازش کے باعث لہو لہان تھا۔ اسرائیل کے بیت المقدس پر حملے، غزہ اور شیخ جراح سمیت فلسطین کے مختلف علاقوں میں ظلم و بربریت اور معصوم و نہتے لوگوں پر ڈرون حملوں اور قتال نے ایک قیامت برپا کر دی ہے۔ ان ظالمانہ کارروائیوں اور خونریزی سے نہتے اور بے گناہ انسانوں کے قتل ِعام میں پھول سے بچوں، خواتین، جوانوں، بزرگوں کی شہادتوں کے وہ ہولناک مناظر سامنے آئے ہیں کہ ہر صاحب دل اور انسانیت پر یقین رکھنے والا خون کے آنسو رو رہا ہے۔ 2 سالہ بچے کے ایک ہاتھ میں فیڈر اور دوسرے ہاتھ میں ملبے کی اینٹ کی تصویر، 6 سالہ بچی کے صیہونی سپاہی کے فائرنگ کے اقدام پر اس کے منہ پر اینٹ دے مارنے اور شہید ہو جانے، نوجوان فلسطینی کے صیہونی فوجیوں کی بربریت پر ان پر گاڑی چڑھانے کی کوشش کی پاداش میں فوجیوں کی فائرنگ سے شہادت پانے کی فوٹیجز دیکھ کر ہر درد دل رکھنے والا تڑپ کر رہ گیا ہے کہ مجبور و مقہور فلسطینیوں پر امریکہ و مغربی طاقتوں کے پٹھو اسرائیل کو روکنے والا کوئی نہیں۔ ایک ارب سے بھی زیادہ مسلم اُمہ کے 57 مماملک کے حکمرانوں کے بس میں یہ بھی نہیں کہ وہ قبلۂ اول کے تحفظ و توقیر کیلئے صف آراء ہو کر عملی اقدام کر سکیں۔ اسرائیل کے ظلم و ستم اور خونریزی پر رشیدہ طلائبی اسرائیلی مظالم پر احتجاج کرتے ہوئے ایک فلسطینی ماں کے اس بیان پر کہ ”میں نے اپنے بچوں کو ایک ہی کمرے میں جمع کر لیا ہے کہ اسرائیلی حملے سے ہم سب ہی مر جائیں اور رونے والا کوئی نہ بچے” پر پھوٹ پھوٹ کر روئی۔ الہان عمر نے اسرائیلی جارحیت سے نہ روکنے پر حکومت کو کھری کھری سنائیں لیکن امریکہ کے صدر نے ”اسرائیل کو سیلف ڈیفنس کا پورا حق ہے” کہہ کر واضح کر دیا کہ اسرائیل نہ صرف امریکہ کا ناجائز بچہ ہے بلکہ امریکی معیشت و سیاست کا وسیلہ بھی ہے۔ اسرائیل کو لامحدود وسائل، جدید تر اسلحے و عسکری برتری کا حامل بنانے میں امریکہ اور مغربی ممالک کے مقاصد کسی سے ڈھکے چُھپے نہیں۔ پہلی جنگ عظیم کے بعد سلطنت عثمانیہ کے حصے بخرے کر کے سرزمین عرب اور مشرق وسطیٰ پر اپنی پالتو ریاستیں قائم کر کے برطانیہ، فرانس اور امریکہ کے مقاصد میں جہاں مسلم اُمہ کو تقسیم کرنا تھا، وہیں ہزاروں برس سے بے وطن اور خانماں برباد یہودیوں کو ایک وطن دلا کر اپنے عقائد کے مطابق بیت المقدس پر قبضہ کرنا تھا۔ اسی باعث فلسطین کو تاج برطانیہ کے زیر نگیں رکھا گیا۔ بعد ازاں یہودی آباد کاری کا سلسلہ جاری رکھا گیا اور 1948ء میں اسرائیل کا قیام عمل میں لایا گیا۔ یہودیوں کو فلسطین کے مختلف علاقوں میں بسا کر فلسطینی مسلمانوں کو اقلیت بنانے کیلئے ظلم و ستم اور جارحیت کا سلسلہ جاری رہا اور مسلم آبادی اُردن، لبنان و دیگر منسلکہ ممالک میں مراجعت پر مجبور ہوئی یا بیت المقدس، غزہ، بیت اللحم تک محدود ہوتی چلی گئی۔ 1967ء کی جنگ، 1973ء کی محاذ آرائی بعد ازاں کیمپ ڈیوڈ جیسے معاہدوں کے ذریعے امریکہ و مغربی ممالک فلسطین پر یہودی قبضہ کی شیطانی چالیں چلتے رہے۔ اقوام متحدہ میں دو ریاستی قرارداد منظور کی گئی لیکن اس قرارداد کا بھی وہی حال ہوا جو کشمیر کے حوالے سے قراردادوں کا ہے۔ بھارت اور کشمیر دونوں معاملات میں مقصد ایک ہی ہے کہ مسلم اکثریت کو اقلیت میں تبدیل کر کے مغربی، صہیونی اور ہندتوا طاقتیں اپنے مفادات و اہداف حاصل کر سکیں۔
فلسطین اور کشمیر میں مظلوموں کا لہو بہہ رہا ہے۔ نسلیں ختم کی جا رہی ہیں، ڈیمو گرافی تبدیل کرنے کی کوششیں جاری ہیں لیکن اسلامی دنیا کے حکمران اپنے سیاسی، معاشی و حکومتی مفاد کے باعث امریکہ، مغربی ممالک حتیٰ کہ بھارت کے بھی حاشیہ نشین بنے ہوئے ہیں۔ متحدہ عرب امارات خصوصاً دبئی کی فلسطین اتھارٹی کو حالیہ امداد اور منصوبوں کے روک دینے کی دھمکی اس کی واضح مثال ہے وجہ حماس کی اسرائیل کیخلاف حریت پسندی قرار دی گئی ہے۔ دیگر عرب و مشرق وسطیٰ کے ممالک بھی بیت المقدس اور قبلۂ اول پر اسرائیلی خونریزی اور بے حُرمتی پر ٹُک ٹُک دیدم، دم نہ کشیدم کی تصویر بنے ہوئے ہیں۔ تُرکی، پاکستان، ایران اور چین اسرائیلی دہشتگردی کیخلاف سراپا احتجاج ہیں لیکن امریکہ کی ہٹ دھرم سپورٹ کے باعث اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل میں چین کی پیش کردہ اسرائیلی جارحیت کیخلاف مذمتی قرارداد بھی بار آور نہ ہو سکی ہے۔ پاکستان، ترکی، ملائیشیا، ایران و انڈونیشیاء کی کوششوں سے او آئی سی کے مُردہ گھوڑے میں بس اتنی جان پڑی کہ اتوار کے روز نشستند گفتند، برخاستند، کے طور سے ورچوئول میٹنگ ہوئی۔ تقریریں مذمت اور قرارداد سے آگے کوئی بھی لائحہ عمل مفقود ہی رہا۔
قبل از اسلام ابرہہ کے بیت اللہ پر حملہ آور ہونے پر تو رب کعبہ نے ابابیلوں سے ابرہہ کے لشکر کو بھوسے میں تبدیل فرما دیا تھا لیکن معجزات ہمیشہ نہیں ہوتے۔ صہیونیت کے مقابل نہتے فلسطینی بقائے جہاد میں آخر کب تک اپنے لہو کا نذرانہ دیتے رہیں گے۔ ان سطور کے لکھے جانے تک ہزاروں مرد، خواتین بچے زخمی ہیں۔ 200 سے زائد ہلاک ہو چکے ہیں زخمیوں میں 60 سے زائد پھول سے بچے ہیں غزہ کی پٹی، شیخ جراح بیت اللحم و دیگر شہر ملبے کا ڈھیر بن چکے ہیں ہزاروں افراد بے یار و مدد گار کُھلے آسمان تلے اسرائیلی حملوں کی زد میں ہیں۔ اسرائیل کے ڈرون اور جہازوں کیساتھ زمینی حملوں کے جواب میں حماس اور جہاد فلسطین کے مجاہدین ایمان کی قوت اور جذبۂ حریت سے نبرد آزما ہیں لیکن کیا جدید ترین اسلحے اور وسائل سے لیس صہیونی اسرائیل (جسے امریکہ اور دیگر مغربی ممالک بمعہ بھارت کی پُشت پناہی ہے) سے فلسطینیوں کو اور قبلۂ اول کو یہ مجاہدین تحفظ دلا سکیں گے یا فلسطین یونہی لہو لہان رہے گا؟ اسلام کے دعویداران خصوصاً عرب اور شرق اوسط کے حکمران تو اپنے مفاد کی بھنگ پی کر خوابِ خرگوش میں ڈوبے ہوئے ہیں۔ ہماری رب العزت سے دعا ہے کہ فلسطین اور کشمیر کے مسلمانوں کیلئے پھر کوئی صلاح الدین ایوبی بھیج دے۔ موجودہ مسلم حکمران تو اس قابل نہیں کہ اسلام دشمن قوتوں کا قلع قمع کر سکیں اور اُمت مسلمہ کا تحفظ کر سکیں۔
اے خدا قبلۂ اول کی حفاظت فرما
دشمن دین کے ہتھکنڈوں کو غارت فرما
کب تلک خون شہیداں پہ کریں گے ماتم
اپنے محبوب ۖ کی اُمت پہ عنایت فرما
٭٭٭