عید آئی بھی اور گزر بھی گئی۔ہر عید کی طرح اس عید پر بھی زبان کے چٹخارے نہیں گئے۔لوگ مختلف انداز میں عید پر پکوان پکاتے رہے اور کھاتے رہے۔یہی سب سے پہلے تو اس پارک کا ذکر کیا جائے جہاں ہم نماز پڑھنے گئے۔یہ بروکلین میں ہمارے گھر سے قریب ہی ایک خوبصورت پارک ہے۔جہاں عید کا اہتمام ہوا۔دور تک بچھی گھاس اور پھر اس پر بیٹھے ہوئے نمازی عید کا سماں تو ویسے ہی خوبصورت ہوتا ہے۔پھر جب کہ موسم بھی اچھا ہو کئی دنوں کی بارش کے بعد مطلع بھی خوبصورت ہو دور تک سنہری دھوپ پھیلی ہو۔تو عید کی نماز پڑھنے کا لطف آجاتا ہے۔اور پھر پانی اور اس پر چلتی ہوئی کشتیاں ہر طرف نماز تکبیر کی آواز گونج رہی ہو تو بے اختیار شکر کرنے کا دل چاہتا ہے کہ ایک سال کے سناٹے کے بعد کچھ تو رونق نظر آئی۔پھر جب عید کا سماں ہو تو کھانے پینے کے سٹال نہ نظر آئیں۔کیک ،کافی ،ڈونٹ، حلوہ پوری اور چنے کا سٹال جہاں آپ کو فری مفت میں ہر کھانے کی چیز دستیاب ہو وہاں بچوں اور عورتوں کا ہجوم بھی نظر آتا ہے پھر کھیل کود کے سامان بچوں کو عید کی خوشی دوبالا کرنے میں مدد دیتے ہیںیوں ہزار پریشانیوں کے باوجود کے کرونا وائرس سے دل الگ پریشان اور فلسطین کے حالات سے لوگ الگ اداس یہ عید تھوڑی خوشی تھوڑے غم کے ساتھ منائی گئی اگر عید پر گھروں میں بھانکا جائے تو اکثر خاندانوں میں عید پر چٹخارے دار پکون پکتے نظر آئے۔بریانی حلیم اور کڑھائی چکن شیر خورمہ زردہ اور دہی بڑے اکثر گھروں میں پکائے گئے کے اب یہاں بسنے والے کئی خاندانوں میں بٹ گئے۔پہلے اکیلے آکر بسنے والے لوگ بچوں والے ہوئے اب ان بچوں کی یہاں شادیاں ہوئیں اور ان کے اپنے بچے بھی ہوگئے۔یوں ایک ہی خاندان ایک بھرا ہوا کنبہ بن گیا۔اب یہی سب لوگ اپنے والدین کے ہاں جمع ہوتے ہیں۔اور ان کے ہاں دیسی پکون ہی پکتے ہیں۔کے زبان کے چٹخارے بھی تو لینے ہیں۔چھوٹے بچوں کے لیے بے شک پیزا منگوالیا جائے اور بڑے اپنے مزیدار کھانوں میں خوشی اس سے بہتر کیا عید کے مزے ہوں گے۔ہمارے دیس کے لوگوں کی یہ بات اچھی ہے کہ وہ جس ملک میں بھی پہنچ جائیں ان کی زبان اپنے کھانے ڈھونڈھتی ہے۔اب تو یہ کھانے یہاں کے کلچر میں ایسے شامل ہوگئے ہیں کہ کسی بھی سٹیٹ یا شہر میں ہوںہر کھانا مل جاتا ہے اور عید پر تو بڑے شہروں کی بات ہی کیا ہے۔مہندی،دیسی کپڑے اور کھٹے میٹھے کھانے سب مل جاتے ہیں۔عید پر کسی چیز کی کمی نہیں رہتی۔اس لیے رمضان بھرا اور رمضان کے بعد اپنے مزیدار چٹخارے والے کھانے ہر گھر میں پکتے ہیںاور کھائے جاتے ہیں۔دعا ہے کے ہمارے بچے بھی ان کھانوں کی قدر کریں کہ ایسے نایاب کھانے کسی بھی ملک کے ہوٹل میں دستیاب نہیں ہر جگہ روکھے پھیکے کھانے ہیں۔عید کے بعد اگر ان کھانوں سے دل بھر گیا ہو تو چند دن پیزا اور سلاد کھا کر دیکھیں پھر اپنے کھانے آزمائیں واہ مزا آجائے گا۔
٭٭٭