حیدر علی
ِٓپاکستان میں جس طرح خوف و ہراس کی دقیق لہر نے لوگوں کو محبوس کر دیا ہے، تیرگی اور اضطرابی کیفیت سے جس طرح وہ مضمحل ہوگئے ہیں اُس کی مثال ماضی میں کبھی نہیں ملتی ہے ا گرچہ سنگین غداری کیس کے سربراہ جسٹس وقار احمد سیٹھ عدالتی فیصلے کو آئیں بائیں شائیں کرکے پڑھ ڈالا لیکن وہ اِس کے اثرات سے خود بے خبر تھے، چھ صفحے پر مشتمل فیصلے کو پڑھنے کیلئے اُنہیں آٹھ گلاس پانی پینے کی ضرورت پڑی، گھر کو واپسی کے وقت اُن کے ڈرائیور نے اُنہیں متنبہ کردیا کہ وہ ذرا دائیں بائیں دیکھ کر چلا کریں کہ کہیں کسی انڈے کی ضرب اُن کے ماتھے پر ٹھنک نہ پڑے تاہم مبہم خیالات سے اُنکا دماغ بھی مفلوج ہوگیا تھا۔ نیند کی غنودگی تودور کی بات وہ اپنے بستر کو خیر باد کہہ کر ڈائننگ ٹیبل کے نیچے جاکر بیٹھ گئے تھے۔ ہر منٹ کے بعد وہ سرگوشی کرتے کہ کوئی دروازہ کھٹ کھٹارہا ہے کیا؟ چند منٹ کیلئے اُن کا سیل فون ڈیڈ ہوگیا تو وہ چیخ پڑے تھے اور کہنا شروع کر دیا کہ گارڈگارڈ بچا¶ میرا سیل فون اُن لوگوں نے جام کر دیا ہے۔ گارڈ نے ایک جھٹکا لگاکر فون صحیح کردیا اور ساتھ یہ نصیحت بھی کردی کہ آئندہ کسی اہم مقدمے کا فیصلہ کرنے سے قبل وہ اپنے فون کی بیٹری کو تبدیل کرلیا کرینگے۔ شام کو وہ شاپنگ کیلئے سبزی مارکیٹ جارہے تھے تو ایک جیپ اُن کی گاڑی کے سامنے آکر اچانک رک گئی ،جیپ سے ایک شخص دوڑتے ہوے اُن کی گاڑی کی طرف لپکا اور کہا کہ” یہ گاڑی سرکار نے آپ کو سبزی خریدنے کیلئے نہیں دی ہے بلکہ اِس سے صرف آپ گھر سے عدالت اور عدالت سے گھر تک کا سفر کر سکتے ہیں، آپ ججوں نے تو حکومت کا دھڑن تختہ کر کے رکھ دیا ہے حتیٰ کہ وزیراعظم بھی اتنی زیادہ فضول خرچی نہیں کرتے ہیں، آپ تو باپ کے مال سے دادا کی فاتحہ کر رہے ہیں، سرکاری گاڑی سے کبھی مری کا سفر کرتے ہیں ، وہاں کے گیسٹ ہا¶س میں قیام و طعام کرتے ہیں، سرکاری گاڑی سے آپ لاہور چلے جاتے ہیں اور وہاں فائیو سٹار ہوٹل میں رہ کر اُس کی بِل حکومت کے کھاتے میں ڈال دیتے ہیں، سرکاری گاڑی سے آپ اپنے کزنوں سے ملنے پشاور چلے جاتے ہیں، آخر آپ اپنے آپ کو کیا سمجھتے ہیں، ہم تو سمجھتے ہیں کہ آپ سے بہتر فیصلہ ایک حولدار بھی کر کے سب کو حیران کرسکتا ہے“ وہ بندہ تو واپس چلا گیالیکن جب گارڈ نے پیچھے مڑ کر سیٹھ کی جانب دیکھا تو اُن کی شلوار گیلی ہوچکی تھی۔ جسٹس وقار احمد سیٹھ کے قریبی ذرائع نے انکشاف کیا ہے کہ موصوف سنگین غداری کیس کے فیصلہ دینے سے قبل روزانہ ایک خرگوش کو ذبح کرکے اُسے دیکھتے رہتے تھے، وہ اپنے دوستوں کو بھی یہ ہانکتے تھے کہ اُنہیں بھی فوج میں ہونا چاہئے تھا، وہ فوج میں بہترین کمانڈو ہو سکتے تھے ، ایک دِن اُنہوں نے اپنے دوست سے یہ شرط لگائی کہ وہ دس میل تک کی دوڑ لگا سکتے ہیں، اُنکے دوست نے اُنہیں گھر سے دس میل کے فاصلے پر لے جاکر چھوڑ دیا اور کہا کہ اب آپ یہاں سے دوڑ لگا کر گھر تک پہنچ جائیں، چند گھنٹے تک اُن کی کوئی شکل نظر نہ آئی ، گھر والوں کو تشویش ہوئی ، اُنہوں نے اُسی راستے پر چل کر اُنہیں تلاش کرنا شروع کردیا، گھر سے تقریبا”چھ میل کے فاصلے پر اُنہیں سبزہ زار پر لمبا لیٹ پایا، استفسار کرنے پر سیٹھ نے جواب دیا کہ اُن کے ٹخنے میں شدید درد ہو رہا ہے، سانس پھول رہی ہے اور سر چکرا رہا ہے۔ گھر والے ایمبولینس بلا کر اُنہیں ہسپتال لے گئے،جسٹس وقار احمد سیٹھ نے اپنے سارے بچوں کے نام بلکہ کتے کے نام کے ساتھ بھی جسٹس لگا دیا تھا، وہ اپنے ایک بچے کو جسٹس منّا ، اور کتے کو جسٹس ڈائمنڈ کہہ کر پکارا کرتے تھے،بعض لوگوں کو تو سخت حیرانگی ہوا کرتی تھی کہ جسٹس ڈائمنڈ تو وہاں موجود نہیں ہے لیکن بعد میں اُنہیں پتا چلتا تھا کہ دراصل جسٹس ڈائمنڈ کتّے کا نام ہے۔
امریکا کے بعض ماہر نفسیات نے خدشہ ظاہر کیا ہے کہ جسٹس وقار سیٹھ (Serial Killer ) ہوسکتے ہیں، اور اُن کا ذہن ہر قیمت پر جرائم اور تشدد سے پُر ہے یہی وجہ ہے کہ اُنہوں نے سنگین غداری کیس کے فیصلے میں یہ حکم صادر کیا کہ اگر جنرل (ریٹائرڈ) پرویز مشرف فوت ہوجاتے ہیں تو اُن کی لاش کو ڈی چوک لائی جائے اور وہاں تین روز تک لٹکائی جائے،مزید بر آںجسٹس وقار سیٹھ نے پرویز مشرف کو پانچ مرتبہ سزائے موت کا حکم سناتے ہوئے کہا کہ جنرل (ریٹائرڈ) پرویز مشرف پر پانچ چارج لگائے گئے تھے، ہر جرم پر ایک مرتبہ سزائے موت دی جائے۔
جسٹس وقار احمد سیٹھ کی خر دماغی ، اُنکی اخلاقیات اور انسانیت سے گِری ہوئی سزا دینے کے معیار
پر لاکھوں کی تعداد میں تبصرے آنا شروع ہوچکے ہیں، کراچی کے مولانا شیخ ربانی نے کہا ہے کہ جسٹس وقار ایک بد روح شخص معلوم ہوتے ہیں، ایسا معلوم ہوتا ہے کہ اُن کے والد اُن پر بہت زیادہ تشدد کیا کرتے تھے جس کی وجہ سے اُن میں انتقام لینے کا جذبہ کوٹ کوٹ کر بھر گیا ہے، یہ بھی ممکن ہے کہ وہ اپنے گھر والوں جن میں اُن کی بیگم بھی شامل ہے اُنہیں بھی اپنی دیوانگی کا نشانہ بنا تے ہیں، مولانا ربانی نے کہا کہ ضرورت اِس بات کی ہے کہ وہ گمراہ شخص روزانہ اُنکے حجرے میں تشریف لایا کریں تاکہ وہ اُنہیں تدریس و حدیث کے ذریعہ اُن کی ذہنی تربیت کر سکیںتاہم لاہور کے ایڈوکیٹ رشید چوہدری نے کہا ہے کہ جج کیلئے یہ ضروری ہے کہ وہ پر سکون، خوش اخلاق اور صلح پسند ہوتاکہ ملک میں ایک صحت مند معاشرہ قائم ہو سکے ، یہ نہ ہو کہ وہ جھگڑالو اور ہر بات کو اپنی اناءکا مسئلہ بنالے، ایڈووکیٹ رشید نے مزید کہا کہ اُنہیںجسٹس وقار کی شخصیت میں صرف کمینہ پن کا عنصر جھلکتا ہوا نظر آتاہے۔