ایک انار سو بیمار!!!

0
760
سید کاظم رضوی
سید کاظم رضوی

سید کاظم رضوی

مملکت پاک کے قیام کے دو سے تین عشرے کے دوران انتظامی تبدیلیاں بہت بڑی تبدیلیاں ثابت ہوئیں اور جب وہاں اپنا سب کچھ چھوڑ کر ایک آزادی اور آزاد ریاست کے نام پر آنے والوں نے جو اسباق بھائی چارہ کے پڑھے اور خواب دیکھے کہ ان کی تعبیر حاصل کی جائے ان کے برعکس جب ملکی پالیسیاں بدلنے لگیں وہ بھی قائد عوام کے ہاتھوں جو جمہوری حکومت بھی تھے اور آج بھی بہت سوں کے ہیرو ہیں اور اطلاع ہے کہ مرے بھی نہیں ، زندہ ہیں ! اور رہیں گے!
بس یہیں سے اس زوال کا آغاز ہوتا ہے جب بد اعتمادی اور حقوق کو سلب کرنے کا بہانے بہانے سے کھیل شروع ہوا جو تاحال جاری ہے۔ ذاتی مفادات اور لالچ زر کیلئے ایک مغربی سفیر نے بڑا تاریخی بیان بھی داغا تھا کہ یہ وہ قوم ہے جو پیسوں کی خاطر اپنی ماں بھی بیچ دے، اس بات پر بڑی لے دے ہوئی اور زبانی کلامی احتجاج بھی لیکن اب بات اس سے بھی بڑھ چکی ہے کیونکہ قوم اپنے بچے ڈارک ویب پر دنیاوی مال کیلئے مہیا کرتی ہے جبکہ یتیموں اور مسکینوں کو جن کی پرورش کا حکم اور شفقت سے برتاﺅ کی تاکید کی گئی وزراءکی عیاشی کا سامان بن رہے ہیں !! افسوس لیکن حقیقت یہی ہے ۔
اسی دوران جب ایک مل±ک میں مقدس کتاب کی بے حرمتی کا گناہ کبیرہ انجام پاتا ہے تو جو احتجاج متوقع تھا اس کے برعکس تو بنگلہ ۲۲ کے حصول کا دھرنا زیادہ بڑا اور شدید تھا !۔خیر وہ کھیل اور تماشہ جو شائد کچھ مخصوص لوگوں اور طبقہ کیلئے تھا لیکن اسکی لپیٹ میں پھر ان کے اپنے گھرانے بھی آتے چلے گئے اور گیہوں کے ساتھ گھن بھی پسنے لگا !!۔
شائد اس قوم کو اور باہر کی مہذب دنیا کو کوئی اس دوسری جنگ عظیم کے وقوع پذیر ہونے کی وجہ بتانے کا گناہ بھی کرے جب ایک ٹوپی والے بھائیوں کی قوم کو کاٹ ڈالا گیا ، اس ظلم± کے دنیا میں چرچے ہیں، ظلم± دنیا میں کہیں بھی ہو ، قابل مذمت ہے لیکن اسکی وجہ بھی مال و دولت کی غیر منصفانہ تقسیم تھی جب ایک بچہ جوان ہوکر فوج میں اہم مقام حاصل کرتا ہے اور اس کو بچپن میں اشرافیہ کی طرف سے کی گئی زیادتیوں اور جبر و ظلم± کا آنکھوں دیکھا حال جو وہ دیکھتے جوان ہوا، اس کو نا انصافیوں اور بے عزتیوں کا قلق تھا اور وہ اندر سے ایک آتش فشاں بن چکا تھا، بس پھٹنے کی دیر تھی !
جاری ہے از قلم

LEAVE A REPLY

Please enter your comment!
Please enter your name here