سید کاظم رضوی
مملکت پاک کے قیام کے دو سے تین عشرے کے دوران انتظامی تبدیلیاں بہت بڑی تبدیلیاں ثابت ہوئیں اور جب وہاں اپنا سب کچھ چھوڑ کر ایک آزادی اور آزاد ریاست کے نام پر آنے والوں نے جو اسباق بھائی چارہ کے پڑھے اور خواب دیکھے کہ ان کی تعبیر حاصل کی جائے ان کے برعکس جب ملکی پالیسیاں بدلنے لگیں وہ بھی قائد عوام کے ہاتھوں جو جمہوری حکومت بھی تھے اور آج بھی بہت سوں کے ہیرو ہیں اور اطلاع ہے کہ مرے بھی نہیں ، زندہ ہیں ! اور رہیں گے!
بس یہیں سے اس زوال کا آغاز ہوتا ہے جب بد اعتمادی اور حقوق کو سلب کرنے کا بہانے بہانے سے کھیل شروع ہوا جو تاحال جاری ہے۔ ذاتی مفادات اور لالچ زر کیلئے ایک مغربی سفیر نے بڑا تاریخی بیان بھی داغا تھا کہ یہ وہ قوم ہے جو پیسوں کی خاطر اپنی ماں بھی بیچ دے، اس بات پر بڑی لے دے ہوئی اور زبانی کلامی احتجاج بھی لیکن اب بات اس سے بھی بڑھ چکی ہے کیونکہ قوم اپنے بچے ڈارک ویب پر دنیاوی مال کیلئے مہیا کرتی ہے جبکہ یتیموں اور مسکینوں کو جن کی پرورش کا حکم اور شفقت سے برتاﺅ کی تاکید کی گئی وزراءکی عیاشی کا سامان بن رہے ہیں !! افسوس لیکن حقیقت یہی ہے ۔
اسی دوران جب ایک مل±ک میں مقدس کتاب کی بے حرمتی کا گناہ کبیرہ انجام پاتا ہے تو جو احتجاج متوقع تھا اس کے برعکس تو بنگلہ ۲۲ کے حصول کا دھرنا زیادہ بڑا اور شدید تھا !۔خیر وہ کھیل اور تماشہ جو شائد کچھ مخصوص لوگوں اور طبقہ کیلئے تھا لیکن اسکی لپیٹ میں پھر ان کے اپنے گھرانے بھی آتے چلے گئے اور گیہوں کے ساتھ گھن بھی پسنے لگا !!۔
شائد اس قوم کو اور باہر کی مہذب دنیا کو کوئی اس دوسری جنگ عظیم کے وقوع پذیر ہونے کی وجہ بتانے کا گناہ بھی کرے جب ایک ٹوپی والے بھائیوں کی قوم کو کاٹ ڈالا گیا ، اس ظلم± کے دنیا میں چرچے ہیں، ظلم± دنیا میں کہیں بھی ہو ، قابل مذمت ہے لیکن اسکی وجہ بھی مال و دولت کی غیر منصفانہ تقسیم تھی جب ایک بچہ جوان ہوکر فوج میں اہم مقام حاصل کرتا ہے اور اس کو بچپن میں اشرافیہ کی طرف سے کی گئی زیادتیوں اور جبر و ظلم± کا آنکھوں دیکھا حال جو وہ دیکھتے جوان ہوا، اس کو نا انصافیوں اور بے عزتیوں کا قلق تھا اور وہ اندر سے ایک آتش فشاں بن چکا تھا، بس پھٹنے کی دیر تھی !
جاری ہے از قلم