دانا شخص کئی محاذ نہیں کھولتا!!!

0
345
جاوید رانا

جاوید رانا، بیوروچیفشکاگو

قارئین کرام! جس وقت یہ سطور آپ کے زیر مطالعہ ہونگی، نئے سال کا آغاز ہو چکا ہوگا، پاکستان نیوز شکاگو اور بالذات میری جانب سے نئے سال کی دلی مبارکباد۔ اللہ رب العزت سے دعا ہے کہ سال 2020ءہم سب کے حق میں فرداً فرداً اور من جملہ امریکہ، تمام عالم بشمول پاکستان مبارک و مسعود ہو۔ آمین۔ دعا ہے کہ دنیا میں امن، سلامتی اور انسانی اقدار کی اہمیت کو اولیت دی جائے اور نفرت، نخوت، عصبیت و قومی بین الاقوامی اختلافات و جھگڑوں سے نجات حاصل ہو۔ 2019ءکا سال دنیا کے بیشتر ممالک بمعہ امریکہ کسی مثالی تصویر کا آئینہ نہیں مختلف حوالوں سے حالات کی مثبت و منفی تصویر سامنے آتی رہی۔ سیاسی، معاشی، مذہبی و معاشرتی ناہمواریاں، تعصب پرستی، انتظامی و ریاستی مسائل سامنے آتے رہے۔ نیوزی لینڈ میں اسلامو فوبیا کا خونی واقعہ، خود امریکہ میں اسی قسم کے متعدد واقعات اور مذہبی و تفریقی منافرت کے مظاہر یقیناً کسی کو بھولے نہیں ہونگے۔ اسی طرح سیاسی، معاشی حوالوں سے بھی نہ صرف ملکوں اور قوموں کے اندرونی انتشار اس سال تواتر سے ہوئے بلکہ بین المملکتی جھگڑے بھی تاریخ کا حصہ بنے ہیں۔ سال گزشتہ برصغیر خصوصاً بھارت کے جنون اور مودی کے مسلم و دیگر اقلیتوں کے مخالف ایجنڈے کے باعث بد امنی و بھارتی ہندتوا کے فلسفانہ نفرت انگیز کردار سے ظلم و بربریت، انسانیت سوزی اور بد امنی، بدترین شاخسانہ بنا رہا۔ بھارت کی ہندوتوا کی داعی مودی سرکار نے نہ صرف اپنے ملک کی اقلیتوں اور نیچی ذات کے ہندوﺅں پر ظلم و قتال کی انتہاءکر دی وہیں اس نے اپنے مذموم ارادوں کی تکمیل کیلئے مقبوضہ جموں و کشمیر اور لداخ کی آزاد آئینی حیثیت و خود مختاری کو ختم کر کے پوری وادی کو آگ و خون کی لپیٹ میں لے کر، کرفیو کی پابندیوں سے دنیا کا سب سے بڑا قید خانہ بنا دیا۔ 150 روز سے زائد ہو چکے ہیں اور مظلوم کشمیری نہ صرف بھارت اور بھارتی فوج کے استبداد سے گرفتاریوں، شہادتوں اور بنیادی انسانی حقوق و سہولیات سے محروم ہیں بلکہ دنیا تک اپنی نجات کیلئے آواز اٹھانے سے بھی قاصر ہیں۔ اپنی اس ناپاک حرکت کو کامیاب بنانے کےلئے مودی سرکار نے پاکستان سے پنگا لینے سے بھی گریز نہ کیا اور نہ صرف اس نے لائن آف کنٹرول پر چھیڑ چھاڑ جاری رکھی بلکہ پاکستان پر سرجیکل اسٹرائیک کی بھی کوشش کی یہ اور بات ہے کہ اسے ذلت اور شکست اٹھانی پڑی بلکہ دنیا بھر میں بھی ہزیمت پر شرمندگی کا سامنا کرنا پڑا۔ ہندوتوا کے چکر میں بھارت اور مودی سرکار اس حد تک پاگل پن میں مبتلا ہیں کہ آج بھارت کی بیسیوں ریاستوں میں مودی حکومت، RSS اور ہندوتوا کےخلاف نفرت کی آگ بھڑک رہی ہے۔ شہریت کے قانون کے نفاذ پر بھارت کے تمام طبقات بشمول ہندو قومیت، مخالف سیاسی اشرافیہ حتیٰ کہ بعض ریاستوں میں بی جے پی کے وزراءو رہنما بھی اس قانون کےخلاف صف آرا ہو گئے ہیں۔ اپنی اس اندرونی ہزیمت سے نجات پانے اور دنیا کی توجہ ہٹانے کیلئے مودی کی پاکستان سے نبرد آزمائی کی سازش واضح نظر آرہی ہے۔ LOC پر باڑھ کانٹے کا ارتکاب، میزائلوں کی تنصیب اور LOC پر آئے دن کی چھیڑ چھاڑ نہ صرف پاکستان بلکہ خطہ کے امن کیلئے بھی تشویشناک ہے اس صورتحال کا نہ صرف وزیراعظم عمران خان نے نوٹس لیا ہے بلکہ وزیر خارجہ اور آرمی چیف نے بھی خدشات کا اظہار کیا ہے اور عالمی قوتوں نیز اداروں کو باور کرا دیا ہے کہ بھارت کا یہ رویہ دنیا کے امن کیلئے خطرے کا باعث ہو سکتا ہے۔ دونوں نیو کلیائی ملکوں کا متحارب ہونا نیک شگون نہیں ہوگا۔
بھارت کی پاکستان دشمن اور مسلم دشمن سرگرمیوں اور شیطانی سازشوں سے پاکستان کا تو انشاءاللہ کچھ بھی نہیں بگڑنا اور نہ ہی مسلم اُمّہ کا بھارت میں کچھ بگڑے گا۔ البتہ بھارت ہندوتوا کے جنون میں خود ہی ٹکڑوں میں بٹ جانے کے منطقی انجام سے دوچار ہوگا۔ صورتحال یہ ہے کہ مودی حکومت معاشی تنزلی کا شکار ہے۔ عالمی مالیاتی اداروں میں اس کی ریٹنگ نیچے آرہی ہے۔ داخلی صورت حال انتشار سے دوچار ہے۔ عسکری طور پر بھی ناکامی چل رہی ہے۔ میزائل فیل ہو رہے ہیں اور جگ ہنسائی کا سبب بن رہے ہیں۔ ایسے میں مودی اور اس کی فوج اگر پاکستان سے کوئی ایڈونچر کرنے کی کوشش بھی کرے تو اسے منہ کی کھانی پڑےگی،بھارت فروری 2019ءمیں یہ دیکھ چکا ہے پاکستان الحمد للہ دشمن کے مقابل عسکری مہارت، جذبے اور مقصدیت میں بہت آگے ہے اور اپنی زمین کی حفاظت کرنا جانتا ہے۔ سب سے اہم بات یہ ہے کہ اس حوالے سے ہمارے تمام ادارے اور قوم کو یکجا، متحد اور یکسو ہیں۔ عمران خان کی حکومت بھی اس حوالے سے بین الاقوامی منظر نامے میں اپنا بیانیہ کامیابی سے پہنچا رہی ہے اور اس کے ثمرات یہ آئے ہیں کہ اقوام متحدہ سمیت تمام عالمی انسانی حقوق کے ادارے مقبوضہ کشمیر میں بھارتی بربریت اور انسانیت کی خلاف ورزیوں کےخلاف آواز اٹھا رہے ہیں۔ اب تو OIC نے بھی کشمیر کے ایشو پر پاکستان میں کانفرنس کے انعقاد کا عندیہ دے دیا ہے اور بھارت کی بربریت اور انسانی حقوق کی خلاف ورزی کرنے پر احتجاج کا اظہار کیا ہے۔
پاکستان کی موجودہ حکومت نے 2019ءمیں خارجی میدان میں یقیناًبے شمار کامیابیاں حاصل کی ہیں۔ امریکہ اور برادر اسلامی ممالک وہ تمام ممالک سے تعلقات میں بہتری آئی ہے۔ اقوام متحدہ میں 50 سال بعد کشمیر کا معاملہ اُجاگر ہوا ہے اور چین، ترکی و ملائیشیا کے رہنماﺅں نے کُھل کر پاکستان کے مو¿قف کی حمایت میں اس معاملے پر خطاب کیا یہاں تک کہ ملائیشیا کے وزیراعظم مہاتیر محمد نے بھارت کی کاروباری تعلقات کے انقطاع کی دھمکی پر کشمیر پر اپنے مو¿قف پر ڈٹے رہنے کا اظہار کیا اور بھارت کو سبکی ہوئی ہے۔ معاشی منظر نامے میں بھی پاکستان کو کامیابیاں ملی ہوئی ہیں۔ عالمی و ایشیائی بینک، IMF اور دیگر مالیاتی اداروں نے بھی اس کی تعریف کی ہے۔ نہ صرف پاکستان کی عالمی ریٹنگ بہتر ہوئی ہے زر مبادلہ میں اضافہ اور اسٹاک ایکسچینج میں ریکارڈ تیزی ہوئی ہے۔ اس حقیقت سے بھی کوئی انکار نہیں کہ پچھلے حکمرانوں کی لوٹ مار اور غلط پالیسیوں کے باعث معیشت بُری طرح متاثر ہو چکی تھی۔ ان کی چالبازیوں سے ملک کے بیشتر اشارئیے صحیح طور پر حقائق سے دور تھے اور موجودہ حکومت نے تمام معاشی اشاریوں کے حقائق آشکار کئے ہیں جس کے نتیجے میں ملک میں نہ صرف مہنگائی بڑھی بلکہ روپے کی قدر بھی گِری، مگر اس بات سے بھی انحراف نہیں کہ اس کے بغیر ملکی معیشت میں بہتری مشکل بلکہ ناممکن تھی۔
کپتان کی حکومت کا ڈیڑھ سال کا عرصہ داخلی سطح پر کسی بھی طور پر غیر معمولی یا مثالی کہنا مناسب نہیں ہوگا۔ خارجی محاذپر پاکستان کا کردار اپنی جگہ لیکن احتساب اور لٹیروں کو نہیں چھوڑوں گا، کسی کو NRO نہیں دونگا کے ہنگامے میں ملک میں نظام کو جو زِک لگی ہے وہ نہ صرف ملک کے نظم و نسق کو تہہ و بالا کرنے کا سبب بن رہی ہے بلکہ خود تبدیلی سرکار کیلئے منفی تاثر کا مو¿جب ہے۔ وزیراعظم اور ان کی کابینہ کے اراکین و ساتھیوں کے روئیے ملک کے پارلیمانی نظام کی افادیت کو متاثر کر رہے ہیں۔ ڈیڑھ سال کے عرصے میں پارلیمان میں صرف گیارہ Legislations ہو سکی ہیں۔ وزیراعظم کا حال یہ ہے کہ وہ اسمبلی میں مخالفین سے ہاتھ ملانا گوارا نہیں کرتے، ان کے ارکان مخالفین پر الزامات لگا کر لعن طعن میں لگے رہتے ہیں۔ جواب میں مخالفین ان پر گرد اُڑاتے ہیں اور قانون سازی دھری رہ جاتی ہے۔ آرڈیننس پر کام چلانے کی کوشش کی جاتی ہے۔ ماضی میں جس طرح 11 آرڈیننس واپس لینے پڑے تھے لگتا ہے نیب کا ترمیمی آرڈیننس بھی اسی انجام سے دوچار ہوگا۔ وجہ یہی کہ مخالفین کے بقول یہی ترامیم اگر پارلیمان سے ہوتیں تو شاید اس میں تحفظات نہ ہوتے، ساتھ ہی وزیراعظم کا جملہ کہ اس سے میرے دوستوں کو بھی فائدہ ہوگا، شبہات کو اور بڑھا گیا ہے۔
وزیراعظم کی ایمانداری، ملک کے مفاد کے مو¿قف اور عزم نیز عوام سے محبت پر کسی کو شبہ نہیں لیکن پاکستان اور عوام کی بہتری کیلئے ان کو اپنے اور اپنے ساتھیوں کے روئیے پر نظر ثانی کرنی چاہیے۔ پاکستان کے عوام میں ستر فیصد تعلیم سے بہرہ ور نہیں، چالیس فیصد خط غربت سے نیچے ہیں۔ مہنگائی نے لوگوں کی کمر توڑ کر رکھ دی ہے۔ دوسری جانب انتظامی معاملات زیر و زبر ہو رہے ہیں۔ کاروباری سرگرمیاں معیشت کی بہتری کے باوجود بھی متاثر ہو رہی ہیں۔ مخالفین کی ہجو اور تذلیل سے ملک اور عوام کے حالات بہتر نہیں ہو سکتے نہ ہی بیورو کریسی اور دیگر انتظامی حلقوں کو مطعون کرنے سے حالات میں بہتری آسکتی ہے۔ وزیراعظم کو دھیان دینا ہوگا کہ وہ کرپشن اور برائی کے حامل عناصر کی سرکوبی کےساتھ عوام کی بہتر زندگی کے اقدامات پر عمل کریں۔ آپ کے گرد وہ عناصر بھی موجود ہیں جو ہر دور میں اقتدار کے مزے لے چکے ہیں اور اپنے مفاد کیلئے کچھ بھی کرنے کو تیار رہتے ہیں۔ آپ کی حکومت بھی حلیفوں کے بل بوتے پر قائم ہے۔ MQM کو بلاول کی پیشکش، اختر مینگل کے تحفظات اور پنجاب میں پی ٹی آئی کے 25 اراکین کی بغاوت کی خبریں، سندھ میں پی ٹی آئی کے اراکین اسمبلی کے شکوے آپ کیلئے بہتر نہیں ہونگے۔ ہماری کپتان سے یہی گذارش ہے کہ حالات کا سنجیدگی سے جائزہ لیں۔ وزیراعظم کے طور سے اپنی گفتگو اور تقاریر میں سوچ اور سمجھ سے کام لیں اور بیک وقت کئی محاذ کھولنے سے گریز کریں۔ دانش وروں کا کہنا ہے کہ دانا شخص ایک ہی وقت میں کبھی بھی کئی محاذ نہیں کھولتا۔ آپ کے اطراف جو برادران یوسف ہیں وہ کہیں 2020ءکو آپ کیلئے مشکلات کا سال بنانے کا سبب نہ بن جائیں۔ ویسے بھی ستارہ شناس نجومی اور مستقبل بین 2020ءکو دنیا بھرمیں تبدیلیوں اور مشکلات کا سال قرار دے رہے ہیں۔
٭٭٭

LEAVE A REPLY

Please enter your comment!
Please enter your name here