!!!کرونا اور معاشرتی بے حسی

0
167
جاوید رانا

قارئین کرام! رمضان المبارک کا پہلا عشرہ اپنے اختتام کو پہنچا، دوسرے عشرے کی بابرکت ساعتیں اُمت کی عبادات کی ادائیگی، نجات اور فیوض و برکات کے حصول سے عبارت ہیں۔ بارگاہ رب العزت سے تزکیۂ نفس کے اجر کے حصول کی ساعتیں ہیں لیکن اس مبارک و مسعود ماہ میں بھی کہ جب رب کعبہ کی جانب سے شیطان کو قید کر دیا جاتا ہے، وطن عزیز پاکستان میں شیطان کے چیلے آزاد ہیں اور اپنی شیطانی حرکات جاری رکھے ہوئے ہیں۔ ایک جانب سیاسی چمتکاریوں کا سلسلہ جاری ہے تو دوسری طرف کرونا کے موذی و مہلک اثرات سے اغماز اور لاپروائی حالات کو شدید ترین بنا رہی ہے۔ اس وقت صورتحال یہ ہے کہ ہسپتالوں میں مریضوں کیلئے گنجائش نہ ہونے کے برابر ہے۔ حکومت اور متعلقہ اداروں کی تمام تر کوششوں کے باوجود عوام احتیاطی تدابیر پر عمل کرنے سے گریزاں ہیں۔ سیاسی مداری تماشہ بازی اور مفاداتی و حکومت دشمنی حرکات سے باز نہیں آرہے ہیں اور بجائے اس کے کہ وہ اس قومی ایشو اور عوامی جانیں بچانے کے مدعے پر یکجان ہو کر اپنا کردار ادا کریں حکومت مخالف منترے پر ہی عمل پیرا ہیں۔ عوام کو احتیاطی تدابیر اختیار کروانے کیلئے حکومت کو فوج کی مدد لینی پڑی ہے، دُکھ کی بات یہ ہے کہ اس معاملے پر بھی یہ شکست خوردہ سیاستدان منفی پراپیگنڈے اور بیانیئے پر عمل پیرا ہیں۔ حالات اس رُخ پر جا رہے ہیں کہ خدانخواستہ یہاں بھی صورتحال بھارت کی طرح نہ ہو جائے جہاں مریضوں کیلئے ہسپتال کم پڑ گئے ہیں اور لوگ سڑکوں، فٹ پاتھوں پر جان دے رہے ہیں، شمشان گھاٹ اور قبرستان بھر چکے ہیں اور مرنے والوں کی آخری رسومات کھیتوں، میدانوں میں ہو رہی ہیں۔
قوموں کی آزمائش اور کردار کی کسوٹی ایسے حالات میں ہی ہوتی ہے کہ وہ کس طرح مصیبت یا آفات کا مقابلہ کرتے اور فاتح ہوتے ہیں۔ ہم پاکستانیوں کا معاملہ یہ ہے کہ ہر ایشو پر اللہ توکل پر رہتے ہیں اور خود کچھ عمل کرنے پر تیار نہیں ہوتے۔ ہاں جب حالات قابو سے باہر ہو جائیں یا تباہی مقدر ہو جائے تو مداوے کیلئے متحد ہو جاتے ہیں۔ قدرتی آفات سے تحفظ کیلئے دین مبین کے واضح احکامات ہیں۔ حدیث نبویۖ ہے کہ جب شہروں میں طاعون پھوٹ جائے تو ان شہروں میں نہ جائو اور اگر تمہارے شہر میں ہو تو باہر نہ نکلو۔ کرونا کی یہ آفت تو طاعون سے بھی زیادہ مہلک ہے لیکن ہمارے لوگ اس حقیقت کو قبول کرنے پر ہر گز تیار نہیں اور اسے نظر انداز کرنا اپنی خُوبی سمجھتے ہیں۔ حکومت اور طبی ماہرین کی مسلسل کوششوں و ہدایات کے باوجود ماسک کے استعمال اور فاصلے کے اقدام کو غیر ضروری سمجھتے ہیں۔ افسوس کی بات تو یہ ہے کہ عوام کو ان کی بہتری اور زندگی کی حفاظت کیلئے ہماری سیاسی اور دینی اشرافیہ بھی اپنا کردار ادا کرنے سے قاصر نظر آتی ہے۔ سیاسی اجتماع، میٹنگز، کارکنوں کے ہجوم، اسی طرح کے تماشے لگائے جا رہے ہیں، مساجد و مذہبی اداروں میں احتیاطی تدابیر نظر انداز کرتے ہوئے نامزوں کے اہتمام، محافل، سحری و افطار کے اجتماع اس وباء کے پھیلائو کا سبب بن رہے ہیں۔ کاروباری و تجارتی طبقات بھی کسی سے پیچھے نہیں ہیں۔ بازاروں، شاپنگ مالز اور اسٹورز پر لوگوں کے ہجوم نظر آتے ہیں۔ نہ ہی صارفین احتیاط کرتے نظر آتے ہیں اور نہ ہی فروخت کنندگان ایس او پیز پر عمل کرتے ہیں۔ حالات سے نپٹنے کیلئے حکومتی ہدایات پر عمل کرنا ان کیلئے قابل قبول نہیں کہ انہیں انسانی جانوں سے زیادہ اپنے کاروبار اور منافع عزیز ہیں۔
کرونا کی شدید ترین صورتحال کے باوجود ہمارے سیاسی و مفاداتی برزجمہروں کے سیاسی تماشے بھی ختم ہونے کو نہیں آرہے ہیں۔ بلاول کو عمران کی مخالفت کیلئے کچھ نہ ملا تو کرونا کے حوالے سے عمران خان کو ہدف بنا ڈالا کہ جس وزیراعظم کو خود کرونا ہوا، وہ عوام کو کرونا سے بچانے کیلئے کیا کر سکتا ہے، موصوف نے پھر وہی منترا دہرا دیا کہ عمران خان اپنے گھر جائے۔ ہمارا بلاول سے صرف یہ سوال ہے کہ بچے کرونا تو تمہیں بھی ہوا تھا۔ تم بھول گئے کہ اس کی وجہ سے تم بختاور کی شادی میں آئسولیشن سے شریک ہوئے تھے تو کیا یہ بھی عمران کی وجہ سے تھا۔ ہونا تو یہ چاہیے تھا کہ ایک صوبے میں حکومت کرنے والی سیاسی پارٹی کے چیئرمین ہونے کے ناطے عوام کے تحفظ کیلئے وفاق سے اشتراک عمل کرتے اور آگے بڑھ کر اس وباء کے تدارک کو یقینی بناتے لیکن اس کیلئے خلوص اور عوام سے سچی محبت لازم ہے اور تمہارے پیش نظر تو سب سے مقدم حصول اقتدار ہے اور عوام محض اس کے حصول کا ذریعہ ہیں۔ ویسے یہ بات صرف بلاول تک ہی محدود نہیں، وطن عزیز کی ساری اشرافیہ بلکہ دیگر شعبوں کو بھی کھنگالیں تو ذات کا مفاد، وقت کی مصلحت اور تعلق کے محرکات مقدم نظر آتے ہیں۔
گزشتہ چند یوم کے واقعات پر نظر ڈالیں تو ہمارا یہ استدلال واضح ہو جاتا ہے۔ اس میں سیاسی، اداراتی، کاروباری، میڈیا حتیٰ کہ حکومتی سارے ہی جتھے اپنے مفاداتی کھیل کھیلتے نظر آتے ہیں۔ شہباز شریف کی ضمانت کا معاملہ، ریفری جج کے طفیل بالآخر ضمانت ہو ہی گئی۔ جسٹس فائز عیسیٰ کیس میں نظر ثانی کا فیصلہ اور پہلے فیصلے کو کالعدم قرار دیا جانا، ہم عدلیہ کا احترام کرتے ہیں لیکن زبانِ خلق کو نقارۂ خدا سمجھو کے مصداق پیٹی بند، پیٹی بند کا ساتھ دیتے ہیں۔ شہباز شریف کے ضمانت کے بعد سیاسی دورے، مولانا ڈیزل سے رابطہ اور پی ڈی ایم کا لانگ مارچ کے حوالے سے بے نتیجہ اختتام، دوسری جانب مریم نواز اور ان کے وفاداروں کی جانب سے جہانگیر ترین کے حوالے سے عمران خان اور ان کی حکومت گرائے جانے کے دعوے اور اپنی سبقت کی خُوش گمانیاں ہمارے مؤقف کو تقویت دیتی ہیں۔ میڈیا حسب معمول اپنی جانبدارانہ و ریٹنگ بڑھانے کی حرکات میں مصروف ہے۔ یہ سب کچھ ہمارے قومی و عوامی مزاج کی نشاندہی کا واضح تصویر ہے۔
حکومتی رویوں میں اگرچہ ہمیں بعض معاملات پر خوشی ہوئی مثلاً کرونا کے حوالے سے فوری فیصلے اور اقدامات، بھارت میں کرونا کی سنگینی و قیامت خیز صورتحال پر پاکستان کی جانب سے بھرپور امداد کی پیشکش، جسے بھارتی میڈیا اور عوام بھی سراہ رہے ہیں وغیرہ لیکن دوسری جانب اس وقت بلا سبب ملتان کا دورہ جہانگیر ترین سے ملاقات اور ایف آئی لاہور کے ڈائریکٹر کی سبکدوشی کا معاملہ ظاہر کرتا ہے کہ کرپشن اور کرپٹ کیخلاف جہاد کا چیمپئن دبائو میں آگیا اور اپنے اقتدار کے تحفظ کیلئے اپنے مؤقف سے پیچھے ہٹ گیا؟ حقیقت تو یہ ہے کہ عمران خان کرپشن کیخلاف اپنے ایجنڈے اور ایمانداری کے باعث ہی عوام کا آج بھی مقبول ترین رہنما ہے اور شکست خوردہ، آزمائے ہوئے کرپٹ سیاسی مافیا کیلئے آہنی ضرب ہے۔ کپتان کو اس حقیقت کو مد نظر رکھنا ہوگا کہ مثبت تاثر کو قائم رکھنا مشکل امر ہوتا ہے جو ایک غلط اقدام سے فوری طور پر منفی ہو جاتا ہے۔ ہم اوپر عرض کر چکے ہیں کہ ہمارے لوگ یعنی پاکستانی عوام اللہ توکل پر بھروسہ کرتے ہیں اور بالذات خود کچھ کرنے پر اس وقت تک راضی نہیں ہوتے جب تک ان کی اپنی ذات پر کوئی وقت نہ پڑے یا معاملہ اجتماعی یا قومی ابتلاء کا نہ ہو۔ اس وقت عوام کو درپیش ابتلاء مہنگائی و بیروزگاری ہے جو عوام کیلئے کرونا سے بھی زیادہ تشویش کا باعث ہے۔ عقلمند کیلئے اشارہ ہی کافی ہوتا ہے۔
٭٭٭

LEAVE A REPLY

Please enter your comment!
Please enter your name here