محبت کے بدلتے رنگ!!!

0
236
رعنا کوثر
رعنا کوثر

رعنا کوثر

ویسے تو آج کل فون کچھ ایسی چیز ہو کر رہ گیا ہے کہ اس سے ہر ضرورت پوری ہو جاتی ہے، لوگوں سے باتیں کر لو، ان کی تصاویر دیکھ لو، ان کے روز مرہ کے کھانے کی تفصیل سے لے کر ان کی سیر و تفریح کے بارے میں مکمل معلومات ہو جاتی ہیں چاہے وہ آپ کے رشتہ دار ہوں، قریبی جاننے والے ہوں یا پھر ایسے جاننے والے جن سے شاذو نادر ہی آپ کی ملاقات یا بات چیت ہوتی ہو۔ پھر بھی آپ کو ان کی روز مرہ کی تفصیلات پتہ ہونگی وہ کہاں گئے، کیا کھایا ان کے کتنے بچے ہیں، وہ بیوی کےساتھ کہاں ڈنر لے رہے ہیں، پاکستان کے بہت سے رشتہ دار جن سے امریکہ آنے کے بعد بات چیت سلسلہ تقریباً ختم ہو چکا ہے ان کی بھی اب پوری معلومات حاصل ہوتی رہتی ہیں۔ اور یہ سب کمال ہے فیس بک کا، میں تو اپنی امی کو جب بھی ان کی کسی بھانجی بھتیجی کی تصویر دکھاتی ہوں جو انڈیا یا پاکستان میں ہیں اور کبھی فون کرنے کی زحمت بھی گوارا نہیں کرتیں لیکن ہر وقت فیس بک پر رہتی ہیں۔ تو وہ ان سے کوئی شکوہ کرنے کی بجائے خوش ہو کر کہتی ہیں یہ کتنی اچھی چیز ہے وہ بہت غور سے تصویر دیکھ کر کہتی ہیں یہ تو بالکل نہیں بدلی، یہ اس کے بچے ہیں اتنے بڑے ہو گئے واقعی فیس بک کمال کی چیز ہے، بندہ غائب مگر تفصیلات حاضر، سب ایک دوسرے سے بے خبر بیٹھے رہتے ہیں مگر ہر بات کی خبر ہوتی ہے ہمارے ایک رشتہ کے بہنوئی ہیں ان کی عمر تقریباً 80 سال ہے پاکستان کے غریب سے محلے میں رہتے ہیں ان کی بیوی اور ہماری کزن جو مالی لحاظ سے ہمیشہ کمزور ہیں ان کی ہمیشہ والدہ نے بڑی امداد کی لہٰذا ہمارے بہنوئی ہمیشہ ممنون رہتے ہیں اب کزن کا انتقال ہو گیا وہ خود کافی بوڑھے کمزور اور غریب ہیں مگر ہم لوگوں کو ابھی بھی یاد رکھتے ہیں ان کے پاس ایسا کوئی فون نہیں ہے کہ وہ فیس بک کے ذریعے یا کسی اور ٹیکنالوجی کے ذریعے ہم سے رابطہ رکھ سکیں مگر وہ سو روپے کا کارڈ پر ایک دو ماہ بعد خرید کر ہم کو پاکستان سے فون ضرور کرتے ہیں اور بہت محبت، شفقت اور رقت آمیز آواز میں ہمارا ایک ایک حال پوچھتے ہیں اور باربار کہتے ہیں بیٹا پریشان نہ ہونا، ان کی محبت آمیز آواز سن کر ہی پریشانی دور ہو جاتی ہے اور ان کی دعا سے دل کو تقویت حاصل ہوتی ہے جب تک ان کا سو روپے کا کارڈ ختم نہیں ہوتا وہ باتیں کرتے رہتے ہیں اور پھر خود بخود کٹ جاتا ہے نہ روز مرہ وہ ہمارے خاندان کی تصاویر دیکھتے ہیں نہ تفصیلات جانتے ہیں۔
پھر بھی سو روپے خرچ کر کے جب وہ ہماری خیریت پوچھ کر فون بند کر دیتے ہیں تو دل کو جو سکون ملتا ہے اس کی بات ہی کچھ اور ہوتی ہے کچھ اور بزرگ بھی ایسے ہی فون کرتے ہیں اور ان کے فون ہمیں بہت اچھے لگتے ہیں ، ان کے مقابلے میں جوان کزن رشتہ دار تصویر پر لائک کا بٹن دبا دیتے ہیں کچھ اچھے تبصرے مل جاتے ہیں ،اس کا اپنا مزا ہے مگر خلوص کی خوشبو تو فون کال سے ہی آتی ہے جو اب بہت کم ہی وصول ہوتی ہے۔ اس سے پہلے لوگ ایک دوسرے کو خط لکھتے تھے اور خط پانے کی جو خوشی ہوتی تھی اس کا اثر کئی دن رہتا تھا پھرخطوں کا سلسلہ ختم ہوا تو فون کا سلسلہ شروع ہوا ،فون زندگی کی سہولت ہے مگر اس میں وہ مزا اور وہ خلوص چھپا نظر نہیں آتا جو خط میں تھا۔ خط تو وہی لوگ ایک دوسرے کو لکھتے تھے جن کے دل ایک دوسرے سے ملے ہوتے تھے پھر فون بھی وہی لوگ ایک دوسرے کو کرتے تھے جو ایک دوسرے کو اچھی طرح جانتے تھے مگر فیس بک جہاں اچھی چیز ہے وہاں کبھی یوں محسوس ہوتا ہے جیسے اس میں محبت اور پیار کی وہ خوشبو نہیں جس کا احساس ہمیں ہمارے بزرگوں کے خط اور دوستوں کے فون کبھی دلاتے تھے۔
٭٭٭

LEAVE A REPLY

Please enter your comment!
Please enter your name here