آنکھوں دیکھا عامر بیگ
وزیر اعظم پاکستان عمران خان اپنی حکومت کی ایسی سٹیج پر پہنچ چکے ہیں جہاں پر انکی حکومت کو اگلے ساڑھے تین سال تک فکر کرنے کی کوئی ضرورت نہیں ،دو صوبوں اور مرکز میں حکومت تیسرے میں ہم خیال اور چوتھے میں مخالف جس کو جب چاہیں گرا بھی سکتے ہیں ،وفاق میں اپوزیشن تتر بتر کچھ بھاگ چکے اور کچھ بھاگنے کو پر تول رہے ہیں مولوی اپنا زور دکھا چکے، اللہ آرمی اور امریکہ سب ساتھ دکھائی دیتے ہیں، مطلب راوی چین لکھتا ہے ابھی کام کی طرف توجہ دینے کی ضرورت ہے پلانز بنانے اور ریفارمز کرنے کی ضرورت ہے ہمسایہ ممالک میں آگ اورخون کا کھیل جاری ہے جس سے ہم براہ راست متاثر ہوتے ہیں یہ سچ ہے موجودہ حکومت احتساب کا منشور لیکر آئی تھی اور سب سرکردہ محکموں نے تعاون کا یقین بھی دلا یا تھاپکڑ دھکڑ بھی ہوئی معیشت بری حالت میں تھی توقع تھی کہ ان لٹیروں سے بیس پچیس بلین ڈالرزکی ریکوری ہوجائے گی ،ملک اپنے پاو¿ں پر کھڑا ہو جائے گا کسی کے آگے ہاتھ پھیلا نا نہیں پڑیں گے اورسیز پاکستانیوں سے بھی امید تھی کہ وہ اپنی جمع پونجی وطن میں لے آئیں گے ،اسی سے ملک کے مسائل دور ہوجائیں گے لیکن خان کو اندازہ نہیں تھا کہ چندہ دینے اور بزنس کرنے میں پاکستانی کتنے مختلف ہیں اور یہ کہ پرانے پاپی سیاست دانوں نے لوٹ کا مال اتنی آسانی سے دے دیا تو حکومت چل پڑے گی وہ ایسا کیوں چاہیں گے یا ہونے دیں گے انہوں نے ممکن تاخیری حربے استعمال کئے اور یہ کوئی پہلی دفعہ تھوڑی تھا تمام داو¿ پیچوں سے یہ لوگ وا قف تھے خیر خان نے دل چھوٹا نہیں کیا ہمت نہیں ہاری لگا رہا بچت کی دوست ممالک اور آئی ایم ایف سے امداد و قرضے لیے ،ملک پاو¿ں پر کھڑا ہو گیا۔ دیوالیہ ہونے سے بچ گیا ۔اس دوران میں احتساب کا ”ہوا “اس حد تک کھڑا ہوچکا تھا کہ ہر کوئی ڈر نے لگا تاجروں نے تجارت اور بیوروکریسی نے کام چھوڑ دیا یہی دو طبقے کسی بھی ملک کے چلنے میں ریڑھ کی ہڈی کا کردار ادا کرتے ہیں موجودہ حکومت اور نیب کی پکڑ دھکڑ نے انہیں ڈرا دیا ملکی معیشت روبہ زوال اور حکومتی کام چلنا سلو ہو گیا پچھلی حکومت کے کارناموں کی وجہ سے انہیں جتنا گندہ کیا جانا یا ہونا تھا وہ اس سے زیادہ ہوچکے ،اب ان سے شاید کچھ ملنے کی توقع بھی نہیں مگر ملک کو سنبھالنے کی ضرورت تھی اور ہے ، لہٰذا نیب قانون میں کچھ لچک کا آرڈی ننس پاس کیا گیا ،سر پر لٹکتی ہوئی تلوار ہٹ گئی ،نیب کے قانون میں جن جن ترامیم کی کافی عرصہ سے ڈیمانڈ کی جاتی رہی وہ بھی کر دی گئیں ۔ان ترامیم سے اب اپوزیشن کو کیا ریلیف ملتا ہے ،دونوں سابقہ بڑوں سے معاہدے ہوچکے ہیں ، سب کی زبانیں بند ہو گئیں کچھ کو بیان بازی کی اجازت بھی دے دی گئی ہے اور کچھ کی بولتی مکمل طور پر بند ہے ،میڈیا کو حریم شاہ کے ذریعے ٹرک کی بتی کے پیچھے لگا دیا گیا ہے ،اب دیکھنا یہ ہے کہ ان ترامیم سے ملکی اکانومی کیا رخ اختیار کرتی ہے جن جن پراجیکٹ پر نظر ثانی کی ضرورت ہے ،کیا ان پر عمل کیا جائے گا کیا تاجر حضرات اپنی سرگرمیوں کو تیز کریں گے اپنا سرمایہ انجیکٹ کریں گے اور ملکی معیشت میں اپنا حصہ ڈالیں گے؟ کیا بیوروکریسی اپنے خول سے باہر نکل آئے گی؟ یا اپنے پرانے آقاو¿ں کی لونڈی بنی رہے گی یا اتنظامی اور معاشی سرگرمیوں میں بہتری لانے کا موجب بنے گی ؟کیا نئے پلانز بنیں گے اور ان پراجیکٹس کو لانچ کرنے میں موجود رکاوٹیں دور ہوں گی؟ کیا پاکستان پر منڈلاتے خطرات کم ہو سکیں گے؟ جنگ اگر ناگزیر ہو گئی تو اس سے بچنے یا مقابلہ کرنے کی کیا تدابیر ہوں گی کیا مسئلہ کشمیر کاکوئی پائیدار حل ممکن ہو پائے گا ؟ ان تمام توجہ طلب مسائل پر توجہ دینے کی ضرورت ہے خان صاحب۔
٭٭٭