مفتی عبدالرحمن قمر،نیویارک
ایک دوست میرے پاس بیٹھا تھا، بچی کے رشتے کیلئے خاصا پریشان تھا، کہنے لگا کوئی ڈھنگ کا رشتہ ہی نہیں ملتا، آج کل کے لڑکے کام ہی نہیں کرتے بلکہ شوق ہی نہیں ہے ایک رشتہ ہے مگر وہ بڑے لوگ ہیں، ہم ان کے ہم پلہ نہیں ہیں۔ مجھے جانتا ہے مگر رشتہ کی بات نہیں کرتا میں نے کہا خاندان کے کسی بچے کو رشتہ دے دو، کم از کم دیکھے بھالے لوگ ہیں۔ بات تو آپ کی ٹھیک ہے مگر کچھ پلّے بھی ہو، بھیک منگوں کو رشتہ تو نہیں دے سکتا، میں نے بحث کرنا مناسب نہیں سمجھا، میں نے کہا اچھا دیکھوں گا، کسی نے پوچھا ضرور بتا دونگا، میں نے جاتے جاتے اسے بتایا، میری چار بیٹیاں تھیں، چاروں کی چاروں اپنے خاندان کے بچوں کو دے دیں، پھر دعا کی، اے اللہ یہ غریبوں کے بچے ہیں، ان کا مستقبل تابناک کر دے، سو اللہ تعالیٰ نے اس درویش کی دعا سن کر مستجاب کر دی، کہنے لگا آپ مولوی لوگ ہیں، ہمیں سوسائٹی کو بھی دیکھنا ہوتا ہے پرانے زمانے کے لوگ کیا انسان نہیں تھے، مشہور محدث حضرت سیدنا سعید بن مسیبؒ نے اپنی بیٹی کو قرآن پاک حفظ کرایا، عالم فاضلہ بنایا، اللہ پاک حسن و جمال بھی وافر عطاءفرمایا، اُڑتی اُڑتی خبر خلیفہ عبدالمالک بن مروان کے کان تک پہنچی، اس نے اپنے بیٹے ولید بن عبدالمالک کیلئے رشتہ کا پیغام بھیج دیا، حضرت سعید بن مسیب نے انکار فرما دیا پچھلے دور میں اور آج کے دور میں یہی فرق ہے، آج کا مسلمان سوچتا ہے، یہ رشتہ بہت اچھا ہے باپ کے بعد خلیفہ بن جائیگا، میری بچی موج کرے گی، مگر حضرت سعید بن مسیب نے سوچا اس گھر میں حلال و حرام کی تمیز نہیں، میں اپنی بچی کو جیتے جی جہنم میں نہیں ڈال سکتا، حضرت سعید بن مسیب کے حلقہ درس میں ایک نوجوان ابووداعا آیا کرتا تھا مگر کئی دنوں سے وہ درس میں شریک نہیں ہو سکا، کافی دنوں کے بعد وہ درس میں شریک ہوا، آپ نے پوچھا ابو وداعہ خیر تھی کئی دنوں سے درس میں شریک نہیں ہوا، عرض کی حضرت میری بیوی فوت ہو گئی تھی، پریشانی میں میری غیر حاضری ہو گئی آپ نے فرمایا ارے بندہ¿ خدا مجھے بتا دیا ہوتا، میں بھی جنازہ میں شرکت کر لیتا ابو وداعہ خاموش ہو گئے، آپ نے فرمایا ابو وداعہ دوسری شادی کروگے، عرض کی حضور میں تو بہت غریب ہوں، بمشکل چند درہم ہونگے، مجھ غریب کو رشتہ کون دے گا؟ آپ کی شادی میں کراﺅں گا میں نے حیرانی سے کہا، آپ نے فرمایا ہاں عرض کی حضور کہاں آپ کا مقام و مرتبہ اور عزت اور کہاں مجھ جیسا غریب طالبعلم، آپ نے خطبہ پڑھا سرکار دو عالم پر درود و سلام بھیجا اور اپنی بیٹی سے میری شادی کرا دی، میں خوشی میں جُھومتا ہوا اپنے گھر پہنچا، زیتون اور روٹی سامنے رکھی کہ دروازے پر دستک ہوئی حضرت سعید بن مسیب تھے اور فرمانے لگے جب تمہاری شادی ہو گئی ہے تو اکیلے گھر میں کیوں رہو، میں تمہاری بیوی چھوڑنے آیا تھا۔ بیس ہزار درہم مجھے نذرانہ دیا اور بیٹی چھوڑ کر چلے گئے، خلیفہ عبدالمالک کو جب پتہ چلا غصے سے تلّملا گیا میرے بیٹے کو چھوڑ کر ایک رنڈوے غریب کو بیٹی دے دی نپٹ لوں گا چنانچہ سردیوں کی ایک یخ بستہ رات اُن کو بلا کر سو کوڑے مارے، پھر اونی کوٹ پہنا کر ٹھنڈا پانی ڈال دیا، آپ نے انتہائی مختصر جواب دیا عبدالمالک ظلم کر لو، مگر تیرے بیٹے سے میرا وہ غریب شاگرد زیادہ حق دار تھا جو عالم تھا، نیک تھا، اور غریب تھا، میں جیتے جی اپنی بچی کو جہنم میں نہیں پھینک سکتا تھا۔
٭٭٭