مفتی عبدالرحمن قمر،نیویارک
جب انسان خود پرستی کا شکار ہو جائے اور یہ سمجھنے لگے کہ میرے بغیر یہ دنیا چل ہی نہیں سکتی یا یہ ملک نہیں چل سکتا یا یہ خاندان میرے بغیر زیرو ہے یا کوئی ادارہ میرے بغیر آگے نہیں بڑھ سکتا ہے وہ بنیادی طور پر عُجُب کا شکار ہو جاتا ہے عُجُب تکبر کی آخری حد ہے سمجھو اس کا انجام قریب ہے اور عام طور پر اس کی جگہ ایک کمزور ترین آدمی کو مقرر کر دیا جاتا ہے مثالیں دنیا میں بھری پڑی ہیں۔ تاکہ آنے والے لوگ اس سے عبرت پکڑیں۔ ہمچو مادیگرے نیست کے نعرے سے باز آجائیں جو بہت مشکل ہے لوگ اپنا انجام دیکھ کر ہی لوٹتے ہیں۔ اسی مارا ماری کے دوران کوئی تیسری قوت آتی ہے اور سب کچھ سنبھال کر بیٹھ جاتی ہے۔ بابا جی سعدی نے ایک حکایت لکھی ہے جنگل میں ایک ریچھ کافی طاقتور ہو گیا اسے اپنی جوانی اور زور پر بڑا اعتماد اور بھروسہ تھا بڑے اعتماد سے نکلتا اور اپنا شکار مار کر اپنے ڈیرے پر لا کر خُوب دعوت اُڑاتا۔ آہستہ آہستہ اسے عُجب کی بیماری لگ گئی وہ یہ سمجھتا کہ اب میرا کوئی مقابلہ نہیں کر سکتا۔ ایک دن حسب معمول شکار پر تھا کہ ایک جنگلی بکرا شکار کیا اور منہ میں دبا کر چلنے ہی والا تھا کہ جنگل کا بادشاہ شیر پہنچ گیا اور للکار کر کہا شکار چھوڑ دو میں جنگل کا بادشاہ ہوں ریچھ نے سوچا میرے جیسا تو ہے ہی کوئی نہیں پھر شیر کیا چیز ہے اس نے شکار چھوڑ کر شیر پر حملہ کر دیا، شیر شیر تھا اور ریچھ طاقت کے نشے میں تھا دونوں گتھم گتھا ہو گئے ہار ماننے کیلئے کوئی بھی تیار نہ تھا لڑتے لڑتے دونوں ہی زخمی ہو کر گر پڑے اور بے سدھ ہو گئے ایک کمزور لومڑی کافی دیر سے تماشہ دیکھ رہی تھی جیسے یہ دونوں بے سُدھ ہو گئے لومڑی آرام سے باوقار طریقے سے چلتی ہوئی آئی اور آرام سے بکرے کو گھسیٹ کر چلتی بنی جب دونوں ہوش میں آئے تو بکرا غائب تھا جس کیلئے وہ لڑ لڑ کر زخمی ہو چکے تھے یہی خود پرستی کا انجام ہے خود پرست للکارتے رہ جائینگے کوئی تیسری قوت کسی کمزور ترین آدمی کو اس کی جگہ پر کھڑا کر کے آنے والے خود پرستوں کیلئے عبرت کا انجام بنا دینگے خود ہی ٹھیک ہو جاﺅ۔
٭٭٭