پیر مکرم الحق،انڈیانا
mukarampeer@gmail.com
کراچی اسٹاک ایکسچینج پاکستان کا سب سے بڑا اور پرانا اسٹاک ایکسچینج ہے جس کی ابتداءپاکستان کے معرض وجود میں آنے کے بعد چند ماہ میں ہو گئی تھی لیکن کاروبار کا باقاعدہ آغاز 10 مارچ 1949ءسے ہوا تھا آغاز میں کراچی اسٹاک ایکسچینج میں ہونے والے کاروبار کی کل مالیت صرف تین کروڑ ستر لاکھ تھی یہ رقم بھی 1949ءمیں ایک اچھی خاصی رقم گردانی جاتی تھی اس وقت امریکی ڈالر (تین روپے) کے برابر ہوتا تھا KSE نے تیزی سے ترقی کرتے ہوئے 2002ءمیں جدید بنیادوں پر چلنے والے ادارے کو دنیا کا بہترین کارکردگی والا اسٹاک ایکسچینج Best Performing Stock Exchange of World قرار دیا گیا۔ 2016ءمیں جب کراچی اسٹاک ایکسچینج 56 چھپن ارب ڈالر کے شیئرز کا کاروبار روزانہ کر رہا ہے اس میں لاہور اسٹاک ایکسچینج اور اسلام آباد اسٹاک ایکسچینج کو بھی ضم کر دیا، لاہور کا اسٹاک ایکسچینج اور اسلام آباد کی اسٹاک مارکیٹ 1970ءاور 1959ءمیں بنائی گئیں تھیں اس تمہید کا مقصد یہ ہے کہ کراچی اسٹاک ایکسچینج پاکستان کے کاروباری دنیا کی شہہ رگ ہے اس میں دس لاکھ کی تعداد کے لوگ روزانہ کاروبار کی گنجائش ہے۔ پاکستان کی تمام شیئر مارکیٹس کا دارومدار اس ادارے کی حفاظت اور بقاءپر ہے اس لئے دہشتگرد اس کی اہمیت کو سمجھتے ہوئے اسے ایک آسان ٹارگٹ سمجھ کر اس پر حملہ آور ہوئے لیکن اس اہم ادارے کی حفاظت پر معمور سندھ پولیس کے اسپیشل دستہ پر مشتمل تین چار نوجوانوں نے اپنی جان کی بازی لگا کر جس جوانمردی سے دہشتگردوں کو مرکزی دروازے پر ہی چیلنج کیا اور دو دہشتگردوں جو کہ بھاری اسلحہ سے لیس تھے انہیں جہنم رسید کیا کیونکہ دہشتگردوں کی مجموعی تعداد چار تھی اپنے دو ساتھیوں کی ہلاکت کے بعد بچے ہوئے دو دہشتگرد ادارے کے مرکزی دروازے سے اندر داخل ہو گئے لیکن سندھ اسپیشل فورس کے تین اہلکار ان دو دہشتگردوں کا تیزی سے تعاقب کرتے ہوئے انہیں فائر کر کے دو منٹ کے قلیل عرصہ میں ہلاک کرنے میں کامیاب ہو گئے اس تمام کارروائی میں سندھ رینجرز کا کوئی اہلکار شامل نہیں تھا اور کیونکہ یہ کارروائی دو منٹ کے قلیل عرصے میں مکمل ہوئی اس لئے اتنے وقت میں رینجرز کا عملہ نہیں پہنچ پایا البتہ کارروائی کی تکمیل کے بعد رینجرز پہنچ گئی اس کارروائی میں صف اول رہتے ہوئے جس سندھ پولیس کے اہلکار نے اپنی جان کی پرواہ نہ کرتے ہوئے جس نڈر انداز سے دہشتگردوں کا مقابلہ کیا اور انہیں نیست و نابود کیا اس جوان کا نام سپاہی محمد رفیق سومرو ہے جس کا تعلق سندھ کے ریگستانی علاقہ تھر پارکر سے ہے قارئین کو یاد ہوگا کہ کراچی کے نیول بیس پر جب دہشتگردوں نے حملہ کیا تھا تو یہ مقابلہ کافی طویل وقت چلتا رہا لیکن اس کے برعکس اس نوجوان سپاہی نے چاروں دہشتگردوں سے جس بہادری سے مقابلہ کر کے انہیں نیست و نابود کیا ہے اس نوجوان سپاہی کی شجاعت اور دلیری کا کھلا ثبوت ہے پاکستان کے آرمی چیف جنرل باجوہ نے کھل کر ان کی تعریف کی ہے سندھ کی عوام نے بھی مطالبہ کرنے میں تاخیر نہیں کی کہ سپاہی محمد رفیق سومرو کو شجاعت و بہادری کا اعلیٰ ترین تمغہ دیا جائے تاکہ سندھ پولیس کے باقی نوجوانوں کی ہمت افزائی ہو۔ اس دہشتگردی کے واقعہ کا اختتام تو خوش آئند ہوا لیکن اس کے ساتھ کچھ سوال بھی اُٹھ رہے ہیں جنہیں ذیل میں پیش کیا جا رہا ہے۔ سوال یہ کہ دہشتگرد کون تھے، کس تنظیم کے کارندے تھے، ذرائع سے معلوم ہوا ہے کہ بلوچ لبریشن آرمی کا ایک باغی دھڑا جسے مجید گروپ، کے نام سے شناخت کیا جا رہا ہے دعویٰ کر رہا ہے کہ یہ کام ان کے کارندوں نے کیا ہے لیکن اس دعویٰ کی حمایت میں کوئی ثبوت نہیں اور بظاہر یہ ایک کھوکھلا دعویٰ لگتا ہے۔
سوال نمبر 2۔ ہندوستان کچھ عرصہ سے پاکستان میں دہشتگردی کروا کر اپنے سینے کی آگ ٹھنڈی کرنے کی کوششوں میں مصروف ہے۔
کیونکہ اس حملہ کے پیچھے کوئی لاجسٹک سپورٹ یا منصوبہ بندی کی طاقت نظر نہیں آتی اس لئے یہ حملہ ایسا پھسپھسا حملہ تھا جسے کر کے ہندوستان جیسے بڑے ملک کیلئے شرمندگی کے علاوہ کچھ حاصل نہیں ہونا تھا۔
3۔ کیا یہ حملہ ایک وارننگ شاٹ تھا؟
پاکستان مخالف قوتوں نے پاکستان کو ایک تنبیہہ کرنے کی کوشش کی ہے، کیونکہ اس حملہ میں افغان طالبان کے شامل ہونے کا کوئی ثبوت سامنے نہیں آیا ہے بہر حال اس معاملے کا ایک اچھا پہلو یہ ہے کہ سندھ پولیس کو بہتر تربیت اور مراعات کے ذریعے دنیاکی ایک بہترین فورس بنانے اور رینجرز کا نعم البدل بنانے کی پاسیبلٹی سامنے آئی ہے ثابت ہوا ہے کہ اگر بہتر تربیت ہو تو پولیس کا ایک سپاہی بھی بہادر جنگجو بن سکتا ہے۔
٭٭٭