واشنگٹن(پاکستا ن نیوز) امریکی اخبار وال سٹریٹ جرنل نے اپنے اداریہ میں لکھا ہے کہ صدر بائیڈن کی ناقص حکمت عملی کی وجہ سے سعودی عرب نے امریکہ سے اپنی راہیں جدا کر کے چین کے ساتھ کاروباری معاملات طے کرنا شروع کر دئیے ہیں۔ سعودی عرب چین کو تیل کی ترسیل کے لیے یوآن کرنسی میں ادائیگیاں کرنے کے معاہدے کے قریب پہنچ رہا ہے، دونوں فریق سالوں سے یوآن میں تیل کی فروخت کی قیمتوں کے تعین کے بارے میں بات کر رہے ہیں دونوں فریق پرجوش ہیں کہ وہ ڈالر کا مشترکہ مقابلہ کریں گے جو کہ امریکہ کے لیے خطرناک سگنل ہے۔ سعودی عرب نے 1974 میں اپنی تیل کی تجارت صرف ڈالر میں کرنے کا عہد کیا تھا اس کے بدلے واشنگٹن نے اس کی سیکیورٹی کی ضمانت دی گئی تھی۔ اخبار نے صدر بائیڈن کو سخت تنقید کا نشانہ بناتے ہوئے کہا کہ انہوں نے ہر موڑ پر اس تعلقات کو نقصان پہنچایا اس سرد رویہ کی وجہ سے سعودی حکمران تنگ آچکے ہیں۔ بائیڈن انتظامیہ کی خارجہ پالیسی کے اقدامات میں سے یمن میں ایران کے حمایت یافتہ حوثیوں کے خلاف سعودی جنگ کے لیے امریکی حمایت کو ختم کرنا تھا۔ امریکہ نے سعودی عرب کے گرد گھیرا تنگ کرنے کے لیے حوثیوں کو دہشت گردی کی فہرست سے بھی نکال دیا۔ اس کے بعد وائٹ ہاؤس نے ریاض کو اسلحہ کی فروخت کا شیڈول ملتوی کر دیا۔ حوثیوں نے سعودی عرب اور اس کے اتحادی متحدہ عرب امارات کے آئل فیلڈز اور شہروں پر ڈرون اور میزائلوں کے زریعے حملے تیز کر دئیے سعودی عرب کو بائیڈن انتظامیہ کی اس پالیسی سے بھی دکھ ہوا۔ بائیڈن انتظامیہ کی افغانستان سے عجلت میں کیے گے انخلائ کے بعد سعودی عرب نے اپنی پالیسیوں کو تبدیل کرتے ہوئے یہی فیصلہ کیا کہ وہ اب زیادہ دیر تک امریکہ پر بھروسہ نہیں کر سکتے۔ یہی وجہ ہے کہ ولی عہد نے صدر بائیڈن کی جانب سے مذید تیل پمپ کرنے کی درخواستوں کو ماننے اور انکی فون کال لینے سے انکار کر دیا تھا۔بیجنگ اس ساری صورتحال سے خوش ہے۔