جاوید نامہ
سال 2020ءکو عالمی منظر نامہ کے حوالے سے جہاں عالمی مبصرین و میڈیا اکیسویں صدی کے تیسرے عشرے کے آغاز کے حوالے سے تبدیلیوں، بے چینی اور محاذ آرائیوں کا سال قرار دے رہے ہیں،و ہیں ماہرین علم نجوم و ستارہ شناس بھی انہی پیشگوئیوں کا اظہار کر رہے ہیں۔ ایک جانب امریکی مفادات اور صہیونی ایجنڈے کا حامی ہونے کے ناطے ڈونلڈ ٹرمپ گریٹر اسرائیل کے منصوبے کو حتمی شکل دینے کا اعلان کرتے ہوئے صرف بیت المقدس کو ہی فلسطین کا حصہ قرار دیتے ہوئے فلسطینی ریاست کو محض 10 فیصد تک محدود کر چکا ہے اور بیشتر مسلم ممالک بشمول سعودی عرب و پاکستان نے ٹرمپ کے اس فیصلے کی تائید بھی کر دی ہے جبکہ دوسری جانب چین کے بڑھتے ہوئے عالمی و معاشی اثر و رسوخ کو زائل کرنے کیلئے مسئلہ کشمیر کے حل میں ثالثی کی آڑ میں بھارت کو اس خطے میں داروغہ بنانے کے چکر میں ہے۔ عالمی مبصرین کے اور ہمارے اپنے ذرائع کے مطابق ڈونلڈ ٹرمپ اپنے پیش آمدہ دورہ¿ بھارت میں کشمیر کے قضیہ کے حوالے سے اہم اعلان کرنے کے موڈ میں ہے اور اس اعلان سے بھارت کو فائدہ پہنچنے کے امکانات زیادہ نظر آرہے ہیں۔ خبروں کے مطابق مقبوضہ اور آزاد کشمیروں کو بالترتیب بھارت اور پاکستان کا حصہ قرار دیتے ہوئے LOC کو مستقل سرحد قرار دےدیا جائےگا۔ ٹرمپ کے ان اقدامات کا ماحصل کیا ہے اور عالمی منظر نامہ پر اس کے کیا اثرات ہو سکتے ہیں۔ اس کیلئے ہمیں امریکی سیاست اور امریکی منصوبہ سازی پر نظر ڈالنی ہوگی۔ موجودہ سال امریکہ میں انتخابات کا سال ہے، نومبر میں صدر کے انتخاب کےساتھ، کانگریس، سینیٹ اور ریاستی انتخابات کیلئے دونوںبڑی سیاسی جماعتوں کے امیدواروں کے پرائمری انتخابات 17 مارچ کو ہونے ہیں، دنیا کی واحد و با اثر مملکت ہونے کے ناطے جہاں دونوں سیاسی جماعتیں امریکی سیاست، معیشت و معاشرت کے حوالے سے اپنا ایجنڈا سامنے لاتی ہیں وہیں عالمی تھانیدار ہونے کے حوالے سے بھی اپنی ترجیحات کا ابلاغ کرتی ہیں۔ یہ حقیقت بھی واضح ہے کہ عالمی برتری برقرار رکھنے اور عالمی سطح پر اپنے اہداف کو بروئے کار لانے کی منصوبہ بندی اور عمل پذیری کا تعین پینٹاگون، سی آئی اے اور دیگر ادارے کرتے ہیں اور سیاسی اشرافیہ متعینہ اہداف کو روبہ عمل لاتی ہے۔ یہ سچائی بھی ڈھکی چُھپی نہیں کہ امریکی سیاست، معیشت، کاروبار پر یہودی لابی کا مکمل کنٹرول ہے اور اپنی کامیابی کیلئے ہر سیاسی جماعت خواہ ڈیمو کریٹ ہوں یا ریپبلکن، اس لابی کے مفادات کو ترجیح بناتی ہے۔ متذکرہ ترجیحات کےساتھ امریکی انتخابات میں مذہب، رنگ، نسل، زبان حتیٰ کہ خود امریکی النسل میں امتیاز و برتری کے افتراق کا بھی بڑا دخل ہے اور پاکستان کی طرح یہاں بھی منصوبہ سازوں اور مقتدرین کی منشاءکے مطابق تبدیلی لائی جاتی ہے۔ 2016ءمیں ہیلری کلنٹن کی عمومی برتری کے باوجود ڈونلڈ ٹرمپ کی پاپولر ووٹ کے حوالے سے کامیابی میں جہاں Red Neek کا تعصب محرک تھا وہیں منصوبہ سازوں کی منشاءبھی شامل تھی۔
2016ءکے انتخابات کے وقت عالمی سطح پر امریکہ کو مشرق وسطیٰ، افغانستان میں 15 سالہ لشکر کشی کے باوجود طالبان کی مزاحمت اور اپنی افواج، وسائل کے ضیاع کا سامنا تھا۔ تو دوسری جانب شمالی کوریا کی محاذ آرائی اور چین و دیگر ترقی یافتہ ممالک کی معاشی ترقی کے باعث امریکی معیشت پر منفی اثرات بھی پریشان کُن تھے۔ ٹرمپ کے صدر بننے کے محرکات اس کے ایک کاروباری و چالاک سیاستدان کےساتھ۔ اسرائیل و یہودی لابی ہمدرد و سپورٹر ہونا بھی تھے۔ ٹرمپ کے صدر بننے کے بعد ایشیائی، آسٹریلوی اور یورپی تجارتی معاہدوں کی تنسیخ، اسلاموفوبیا کے رحجان اور اسلحہ کے آزادانہ استعمال چین اور دیگر ممالک پر بے تحاشہ ڈیوٹیز کےساتھ مشرق وسطیٰ میں داعش، حوثیوں اور حزب اللہ کو ہدف بنانے کے بہانے سعودی عرب کےساتھ اسلامی فوج کا قیام اور شام، فلسطین اور ایران میں انتشار کی صورت پیدا کرنے کےساتھ افغانستان میں مسلسل ناکامی کی وجہ سے فوجیوں کی واپسی کا ایجنڈا امریکی اسٹیبلشمنٹ و منصوبہ سازوں کے ایجنڈے کا حصہ تھا۔ ساتھ ہی اپنی کینہ فطرت کے باعث ٹرمپ کے بعض ممالک سے خفیہ رابطوں کے ذریعے اور اختیارات کے ناجائز استعمال کے معاملات بھی سامنے آئے۔ معاملہ ٹرمپ کے مواخذے تک پہنچا لیکن سینیٹ میں ریپبلکن کی اکثریت کے باعث وہ مواخذے سے بچ گیا تاہم ٹرمپ کی مقبولیت میں کمی آئی ہے۔
قارئین کو یاد ہوگا کہ ہم نے تقریباً ایک سال قبل پیش گوئی کی تھی کہ 2020ءکے الیکشن سے قبل صدر ٹرمپ چین پر عائد معاشی پابندیاں ہٹا کر معاہدہ کی راہ اپنائے گا جبکہ امریکی اسٹیبلشمنٹ کی پوری کوشش ہوگی کہ افغانستان میں امن کے پراسیس اور اپنی افواج و نیٹو کی دستبرداری کا راستہ نکالا جائے۔ قارئین ان دونوں حوالوں سے ہونے والی پیش رفت سے بخوبی واقف ہیں۔ افغانستان سے امریکہ کی دستبرداری میں طالبان کو مذاکرات کی میز پر لانے میں پاکستان کا اہم کردار رہا ہے اور امریکی اسٹیبلشمنٹ اس کا اعتراف بھی کرتی ہے لیکن امریکہ پاکستان کا شروع سے ہی وہ دوست ہے جو اپنا مطلب تو نکال لیتا ہے لیکن پاکستان پر وقت پڑے تو آنکھیں ماتھے پر رکھ لیتا ہے۔ یا طفل تسلیوں سے وقت گزار دیتا ہے خصوصاً پاکستان کے ازلی دشمن بھارت کے مقابل وہ اپنی بھارت سے سیاسی و معاشی محبت کے ناطے پاکستان سے نت نئے حیلے بہانے کرتا ہے امیدیں بندھاتا ہے اور پاکستان اس کے دنیا کی واحد اور مو¿ثر طاقت ہونے کے باعث حصار سے نہیں نکل پاتا ہے۔ چینی امریکی تعلقات کے قیام کا مرحلہ ہو، روس کے انہدام و شکست و ریخت کا معاملہ ہو یا 9/11 کی آڑ میں افغانستان میں لشکر کشی ہو،ا مریکہ نے پاکستان کو ہمیشہ استعمال کیا لیکن پاکستان کی 71ءکی جنگ کا کارگل کا معاملہ ہو یا کشمیر ایشو ہمیشہ دلاسے تسلی اور نئی تجاویز سے پاکستان کو بہلاتا ہے۔ گویا ہمیں مستقل نیچے یعنی تھلے لگائے رکھتا ہے اور ہماری اشرافیہ و مقتدرین بھی خوش فہمیوں کے سائے میں اس کے حصار میں گھرے رہتے ہیں۔
کشمیر کے قضئیے میں وزیراعظم عمران خان کے دورہ¿ امریکہ کے بعد ازاں ڈیووس کانفرنس میں کشمیر کے مسئلہ پر حل پر امریکہ کے کردار ادا کرنے کی اپیل پر صدر ٹرمپ کی ثالثی کی پیشکش کے بعد جو صورتحال سامنے آرہی ہے وہ کسی بھی طور سے نہ مظلوم کشمیریوں کے حق میں ہے نہ پاکستان کے حق میں ہے اور نہ اقوام متحدہ کی قراردادوں سے مطابقت رکھتی ہے۔ یہ صورتحال ایک طرف بھارت کی مقبوضہ کشمیر کے حوالے سے غیر آئینی سازش اور خود امریکہ کے چین پر دباﺅ کےلئے ایک تھانیدار بٹھانے کے مترادف ہے۔ ذرائع کے مطابق اس معاملے پر پاکستانی حکومت و اسٹیبلشمنٹ کو مکمل خاموشی اختیار کرنے کی ہدایت کی گئی ہے اور اس پر 5 ماہ سے عملدرآمد ہو رہا ہے۔ گویا پاکستان کا وزیراعظم کشمیر کاز کا سفیر اپنے مو¿قف سے یو ٹرن لے چکا ہے نیز لائن آف کنٹرول کو مستقل سرحد تسلیم کر کے ہم قائداعظم کے ارشاد کشمیر پاکستان شہ رگ ہے سے بھی منحرف ہو رہے ہیں۔
شنید ہے کہ ڈونلڈ ٹرمپ کے آمدہ دورہ¿ برصغیر میں کشمیر کے ایشو پر فیصلہ سازی آشکار ہوگی۔ غالباً اسی تناظر میں سعودی عرب کے زیر قیات مسلم اُمہ کی دعویدار تنظیم او آئی سی( ہمارے حساب سے اوہ آئی سی) نے کشمیر کے معاملے کو ایجنڈے میں شامل نہیں کیا۔ مسلم امہ کی امریکہ کے دباﺅ اور اثر سے مشرق وسطیٰ جن حالات سے گزر رہا ہے وہ اظہر من الشمس ہے۔ ایران اور شام سے امریکہ کا بُغض بھی اسی لئے ہے کہ وہ اس کے دباﺅ میں نہیں آرہے ہیں۔ اس تمام منظر نامے میں کوالالمپور سمٹ ترکی، ملائیشیا، پاکستان کےساتھ دیگر ممالک بشمول ایران و شام منعقد ہوئی لیکن سعودی عرب کی دھمکی سے ہمارے کپتان نے شرکت سے گریز کیا۔ اب یہ خبریں کہ پاکستان نے فلسطین کے حوالے سے ٹرمپ کے منصوبے پر صاد کیا ہے نیز کشمیر کے قضیہ کے حوالے سے پاکستان کی پانچ ماہ سے خاموشی یہ احساس دلا رہی ہے کہ ہماری ریاست اور حکومت امریکہ کی دست نگری کی بناءپر اپنے ازلی دشمن بھارت اور مسلم دشمن ا سرائیل کے ایجنڈے کے سامنے سرنگوں نظر آرہی ہے۔ ایک نیو کلیائی، دنیا کی بہترین و محب وطن فوج اور قوم کی حامل مملکت کیلئے یہ رویہ و کردار ہر گز شایان شان نہیں خصوصاً ایسی سچویشن میں کہ جب بھارت اپنی اندرونی ناکامیوں کو چھپانے کیلئے کسی بھی ناپاک اقدامات کے مُود میں ہے ہماری حکومت و ریاست کو اپنی یکجہتی مضبوطی ور سالمیت کے حوالے سے مضبوط اور مدون کردار ادا کرنا ہوگا۔ بھارت میں مودی اور اس کے حواری اپنی حرکتوں سے خود ہی منطقی انجام کو پہنچ رہے ہیں۔ دہلی کا انتخاب اس کی واضح شہادت ہے ہمیں اپنا قبلہ بھی درست کرنا ہوگا اور امریکہ کے FATF IMF اور دیگر حربوں سے نکلنا ہوگا اور اپنی آزادی و سالمیت کے متحد و اجتماعی اقدامات کرنا ہونگے اور عالمی منظر نامے میں اپنا واضح کردار ادا کرنا ہوگا۔ ورنہ!
خدا نے آج تک اس قوم کی حالت نہیں بدلی
نہ ہو جس کو خیال آپ اپنی حالت کے بدلنے کا
٭٭٭