وطن عزیز میں غیر یقینی سیاسی صورتحال، بد امنی کی تشویشناک اور اسموگ کی بدترین سچویشن سے دوچار قوم کو پاکستانی کرکٹ ٹیم کی آسٹریلیا کو شکست سے دوچار کر کے یقیناً مسرت و شادمانی کا وہ لمحہ ملا ہے جس کی عرصہ سے اشد ضرورت تھی، آسٹریلوی سرزمین پر تین ون ڈے میچوں کی سیریز میں پاکستان کی 2-1 سے بائیس برس کے بعد فتح نے قوم کو سرشاری سے فیضیاب کیا ہے، مایوسی اور نا امیدی کے ماحول میں بلا شبہ یہ کامیابی روشنی کا استعارہ ہے۔ اس کامیابی کی تفصیل اور پاکستانی کھلاڑیوں کی پرفارمنس سے ہر پاکستانی نہ صڑف پوری طرح آگاہ ہے اور اظہار مسرت و یکجہتی کر رہاہے بلکہ دوسری جانب روایتی حریف بھارت کی کرکٹ اشرافیہ، میڈیا حتیٰ کہ انتظامی و سیاسی اور حکومتی صفوں میں بھونچال برپا ہے، اس کی تازہ ترین مثال پاکستان میں منعقد ہونیوالی چیمپئنز ٹرافی میں بھارت کی شرکت نہ کرنے کے اعلان سے سامنے آئی ہے۔ دیکھا جائے تو بھارت کے اس انکار کی وجہ حالیہ مقابلوں میں بھارت کی نیوزی لینڈ سے ٹیسٹ سیریز میں بدترین شکست، پاکستان کی انگلینڈ کیخلاف ٹیسٹ سیریز میں فتح اور اب آسٹریلیا کیخلاف ون ڈے میں کامیابی کا تناظر ہے۔ ہماری نظر میں گزشتہ دو برسوں سے انتشار اور پے درپے ناکامیوں اور امریکہ میں ٹی ٹوئنٹی ورلڈکپ میں امریکہ سے شکست سے دوچار ہونیوالی ٹیم کا سیاسی اصطلاح میں سافٹ ویئر اپڈیٹ ہو گیا ہے، اب یہ محسن نقوی کے ڈنڈے سونٹے کی بناء پر ہوا ہے یا عاقب جاوید کی حکمت عملی و رہنمائی اور کھلاڑیوں کے باہمی اتحاد کے سبب ہوا ہے، بہرحال ملک اور کھیل کیلئے خوش کُن پیش رفت ہے خصوصاً چیمپئنز ٹرافی سے قبل دعا ہے کہ اجتماعیت و وطنیت کا یہ جذبہ و عمل برقرار رہے اور مفادات و ذاتیات کی بھینٹ نہ چڑھ جائے۔
مفادات، ذاتیات اور خود غرضی کی جو بدترین کیفیت اس وقت میرے وطن میں ہے اس کی حد محض سیاسی معاملات اور اقتدار بچانے تک ہی محدود نہیں بلکہ ہر حوالے سے نظر آرہی ہے۔ پنجاب بالخصوص لاہور میں اسموگ کی انتہاء نے سارے نظام حیات کو ختم کر دیا ہے، تعلیمی ادارے، دفاتر، کاروبار حتیٰ کہ انتظامی، عدالتی، طبی و دیگر سرگرمیاں ختم ہو جانے کی حد تک متاثر ہیں۔ افسوس کہ اس حوالے سے کوئی حتمی اور تحفظاتی اقدام مفقود نظر آتا ہے، اسموگ جان کا روگ بن چکی ہے۔ ہسپتال مریضوں سے بھر چکے ہیں، اموات کا تسلسل ہے اور اس خراب ترین صورتحال میں بے حسی اور خود غرضی کا یہ عالم ہے کہ وزیراعلیٰ صاحبہ اپنی سینئر وزیر اور صوبے کے چیف سیکرٹری سمیت گلے کی خراش کے جواز پر یورپ کی سیر کے مزے لے رہی ہیں۔ والد محترم پہلے سے ہی یورپ اور امریکہ کی فضائوں کے مزے لوٹنے میں مصروف ہیں۔ بے حسی اور بے شرمی کی انتہائی یہ ہے کہ جینیوا میں ایک خاتون کے اعتراض پر بھی چکنا گھڑا ہی بنے رہے نہ باپ کو غیرت آئی نہ ہی بیٹی شرمندہ ہوئی۔ ہونا تو یہ چاہیے تھا کہ ملک کے سب سے بڑے صوبے کے دارالحکومت دو کروڑ آبادی کے شہر کی نہایت مخدوش و تشویشناک صورتحال کے پیش نظر ن لیگ کی شہزادی وزیراعلیٰ پنجاب حالات پر قابو پانے اور عوام کے تحفظ و سلامتی کیلئے متحرک و فعال ہوتیں اور اسموگ کے تدارک کیلئے عمل کرتیں، موصوفہ گلے کی خراش کے بہانے نہ صرف خود عازم یورپ ہو گئیں بلکہ صوبے کے انتظامی سربراہ کو بھی اپنی خدمت کیلئے ساتھ لے گئیں، صوبہ جائے بھاڑ میں کیونکہ انہیں خبر ہے کہ جب تک موجودہ اسٹیبلشمنٹ کا ہاتھ ان کے سر پر ہے اقتدار ان کے پاس رہے گا، سچ یہ ہے کہ اقتدار کا ہما خواہ موصوفہ کا ہوا یا چچا وزیراعظم کا شکست کھانے کے باوجود اسٹیبلشمنٹ کے طفیل ہے۔ طفیلی اقتدار کا یہ تماشہ آٹھ مارچ سے شروع نہیں ہوا، اس کا آغاز تو عوام کی حمایت و مقبول حکومت کیخلاف مقتدرہ اور عوام کے محبوب رہنما کے ذاتی رہنما کے اختلاف اور اس دور کی امریکی اسٹیبلشمنٹ و صدر امریکہ کے ایماء پر تحریک عدم اعتماد سے ہوا تھا، ڈھائی سالوں سے عمران خان اور پی ٹی آئی نیز عوام کیساتھ جبر و استبداد کی جو داستان رقم ہوئی، ترمیمات، قوانین میں غیر آئینی تبدیلیوں، عدالتی فیصلوں سے کھلواڑ اور ہر مخالفانہ اقدام کے باوجود حقیقت یہ ہے کہ عمران خان آج بھی قوم کا واحد قائد و رہنما ہے اور مقتدرہ کی پروردہ بیساکھیوں کی موجودہ حکومت عوام کیلئے ہر گز قابل قبول نہیں ہے۔
پانچ نومبر کو امریکی انتخابات میں ریپبلیکنز کی دونوں ایوانوں میں اور صدر ڈونلڈ ٹرمپ کی کامیابی کے بعد توقع ہے کہ پاکستانی سیاست میں امریکی انتظامیہ و اسٹیبلشمنٹ کی پالیسی میں ممکنہ تبدیلی اور صدر ڈونلڈ ٹرمپ و عمران خان کے تعلقات کے سبب تبدیلی آسکتی ہے۔ یہ بات کہنا قبل از وقت ہو سکتا ہے تاہم پاک امریکہ تعلقات کی تاریخ یہ بتاتی ہے کہ ڈیمو کریٹس کے مقابلے میں ریپبلیکنز کا پاکستان کیساتھ رویہ مثبت رہا ہے، پی ٹی آئی کی جدوجہد پاکستان ہی نہیں بیرون ملک بھی جاری ہے اور امریکی انتظامیہ میں تبدیلی و عالمی منظر نامے کے تناظر میں امید کی جا سکتی ہے کہ وطن عزیز میں حالات بہتری اور جمہوریت کی جانب جلد جائینگے، کرکٹ سے سیاست، معیشت اور عوام کی بہتری کی نوید جلد ملے گی۔
ملت کیساتھ رابطہ استوار رکھ
پیوستہ رہ شجر سے امید بہا رکھ
٭٭٭