شاعرِ رجائیت!!!

0
49
ڈاکٹر مقصود جعفری
ڈاکٹر مقصود جعفری

ممتاز شاعرہ اور ادبی دانشور ڈاکٹر عائشہ ظفر کے شعری مجموعہ بھیگتی آنکھ کا دکھ کی تقریبِ رونمائی میں فیصل آباد گیا تو میں نے اپنی صدارتی تقریر میں کہا میں ڈاکٹر شاہد ندیم کی ادیبانہ اور دانشمندانہ تقریر سے بہت متاثر ہوا ہوں۔ آپ ایک سائنسدان ہیں لیکن آپ کا ادبی ذوق قابلِ تعریف ہے۔ تقریب کے اختتام پر ڈاکٹر صاحب نے اپنا شعری مجموعہ صرف تمبطورِ تحفہ مرحمت فرمایا۔ اِس کتاب کے مطالعہ کے بعد دل نے گواہی دی کہ ا س پر رائے دوں ۔ اس شعری مجموعہ میں آپ نے اپنی شاعری اور زندگی کے بارے میں بہت فکر انگیز باتیں لکھی ہیں۔ لکھتے ہیں اگر کبھی یاسیت کا جال مجھے اپنی لپیٹ میں لینے بھی لگے تو میں دھاگوں کو توڑ کر نئے سرے سے امید کی ڈور کاتنے لگتا ہوں۔ آپ ماضی کی پریشانیوں کو دل سے لگانے کی بجائے حال کے مسائل کو سلجھانے پر یقین رکھتے ہیں گویا آپ ایک عملی انسان ہیں اور رجائیت پسند ہیں۔ ایک سائنسدان ہونے کے ناطے آپ زندگی کو فانی بدایونی کی طرح دیوانے کا خواب نہیں سمجھتے جس نے کہا تھا!
اک معمہ ہے سمجھنے کا نہ سمجھانے کا
زندگی کاہے کو ہے ، خواب ہے دیوانے کا
جب کسی نے یہ شعر علامہ اقبال کو سنایا تو آپ نے کہا یہ کس کا شعر ہے۔ انہیں بتایا گیا کہ یہ فانی بدایونی کا شعر ہے تو آپ نے کفِ افسوس ملتے ہوئے کہا۔ میں جس قوم کو جگانے میں تگ و دو کر رہا ہوں، یہ شاعر اسے سلا ئے رکھنا چاہتا ہے۔ کیونکہ علامہ اقبال کا تو فلسفہ یہ تھا!
جب تک نہ زندگی کے حقائق پہ ہو نظر
تیرا زجاج ہو نہ سکے گا حریفِ سنگ
گو ڈاکٹر شاہد ندیم کی شاعری کا محور ذاتی، جذباتی ، وجدانی اور رومانوی احساسات ہیں، وہ زندگی کے حقائق سے غافل نہیں وہ ایک دانشمند کا ذہن اور شاعر کا دل رکھتے ہیں۔ کہتے ہیں
دنیا کے حادثات نے پتھرا دیا مجھے
آنسو کو میری آنکھ کے ہیرا بنا دیا
یہ زندگی عذاب سے کیا کم تھی اے خدا؟
اِس پر بھی تو نے موت کا پہرہ بٹھا دیا
آپ کے کلام میں جابجا انقلابی اشعار بکثرت ملتے ہیں۔ جوش ملیح آبادی کو شاعرِشباب و شاعرِ انقلاب کہا جاتا ہے۔ فیض احمد فیض اور احمد فراز بھی محبت کے ساتھ ساتھ انقلاب کی آواز بلند کرتے رہے۔ رومی شاعرِتصوف ،حافظ شیرازی شاعرِ محبت ، ولیم ورڑزورتھ شاعرِ فطرت، شیلے شاعرِ انقلاب، لارڈ بائرن شاعرِ آزادی اور جان کیٹس کو شاعرِ محبت کہا جاتا ہے۔ میں ڈاکٹر شاہد ندیم کو عصرِ حاضر کا شاعرِ رجائیت کہتا ہوں۔ آپ زندگی کی شبِ تیرہ میں بھی روشنی کی کرنیں تلاش کر لیتے ہیں اور خود اپنے آپ کو حال مست قرار دیتے ہیں۔ کتاب کے آغاز میں عرضِ شاعر کے طور پر بس یہ کہنا ہے میں لکھتے ہیں مجمع سے گھبراتا ہوں کہ بھیڑ مجھے بے ہنگم شور کے سوا کچھ نہیں لگتی۔ گو آدم بیزار بالکل بھی نہیں لیکن سچ تو یہ ہے کہ تنہائی مجھے راس آتی ہے ۔انگریز شاعر ولیم ورڑزورتھ بھی تنہائی کو تخلیقی لمحات قرار دیتے ہیں۔ تنہائی فکر کے لیے مہمیز کا کام کرتی ہے۔ آپ اسی طرف اشارہ کرتے ہوئے ایسے انقلابی اور فکر انگیز اشعار کہتے ہیں!
کمالِ وسعتِ فکر و نظر کی بات کرتا ہوں
میں کیسا شب گزیدہ ہوں ، سحر کی بات کرتا ہوں
بغاوت پہ مجھے اکسا رہی ہے میری خود داری
کہ اندازِ جنوں میں بھی ہنر کی بات کرتا ہوں
یہ میری کم نگاہی گر نہیں تو اور پھر کیا ہے؟
پسِ زنداں ہوں لیکن ہمسفر کی بات کرتا ہوں
بصیرت دیکھیے میری مجھے کس موڑ پر لائی
کہ میں راہزن کے آگے راہبر کی بات کرتا ہوں
یہ اشعار قنوطیت سے کوسوں دور رجائیت کے آئینہ دار ہیں۔اردو شاعری میں قنوطیت، مایوسی، زندگی سے بیزاری، روایتی عاشقی، دردِ ہجراں، گل و بلبل، اور مذہب و تصوف کا تذکرہ ملتا ہے۔
یہ سب موضوعات ہمارے روایتی معاشرے کا حصہ ہیں۔،لیکن کیا زندگی ان موضوعات کے علاوہ بھی زندگی ہے۔استاد فوق لدھیانوی کا شعر ہے
زندگی لطف اٹھانے کے لیے ہوتی ہے
زندگی ہو تو کوئی لطف اٹھایا جائے
ڈاکٹر شاہد ندیم زندگی کو موت بنانے کی بجائے موت کو زندگی بنانے کی جستجو میں ہیں۔ وہ معاشرے میں سماجی، معاشی اور سیاسی تبدیلی کے خواستگار ہیں تاکہ زندگی کو حقیقی زندگی بنایا جا سکے اور اسی کو ایک شاعر کا خواب کہتے
ہیں۔
آپ غزل اور نظم پر یکساں دسترس رکھتے ہیں۔آپ کی شاعری سادہ و سلیس ہے۔مزاج میں انکساری اور خوش اطوار ی ہے۔چہرہ متبسم اور شاعری مترنم ہے۔
آپ کی شاعری کا فکری، سماجی اور انقلابی رنگ و آہنگ بجالیکن آپ کی رومانوی شاعری بھی آپ کے دلِ سوختہ کی آواز ہے۔ ایک غزل کے دو شعر ملاحظہ ہوں
ٹوٹ جاتے ہیں جو لمحے وقت کی زنجیر سے
پھر کبھی ملتے نہیں وہ حال کی تصویر سے
داستانِ عہدِ رفتہ کی طرح تم بھی گئے
پھر کبھی پلٹے نہیں ہو خواب کی تعبیر سے
کتاب میں متعدد موضوعات پر نظمیں ہیں جو زیادہ تر رومانوی ہیں جیسے کہ ایک تعلق رہنے دے، صرف تم، محبت دردِ لا دوا، چلے آ، کہاں سے لاں گلاب چہرہ ، ادھورا پن، وہ ساتھ ساتھ ہے میرے، محور اور گمشدہ خواب ۔ خواب دیکھنا شاعر کی فطرت ہے۔ اگروہ مکتبِ غالب سے ہے تو بقولِ غالب اس کی ذہنی کیفیت یوں ہو گی
ہے غیب غیب جس کو سمجھتے ہیں ہم شہود
ہیں خواب میں ہنوز جو جاگے ہیں خواب میں
اور اگر شاعر احمد فراز کے مکتب سے ہے تو پھر اس کا درد فقط دردِ ہجراں ہو گا-احمد فراز کا شعر ہے
اب کے ہم بچھڑے تو شاید کبھی خوابوں میں ملیں
جس طرح سوکھے ہوئے پھول کتابوں میں ملیں
اب دیکھنا یہ ہے کہ ڈاکٹر شاہد ندیم صاحب کے خوابوں کی نوعیت کیا ہے۔خواب دیکھنا صرف شاعر کا ہی نہیں ہر شخص کا حق ہے۔آپ ایک نظم وہی خواب سب میں کہتے ہیں
مری زندگی کے عذاب سب
مری خواہشوں کے سراب سب
جو حقیقتوں کو ترس گئیں
مری منزلیں
وہی خواب سب
ڈاکٹر شاہد ندیم شباب و انقلاب کا شعل جوالا بھی ہیں اور آتش فشاں بھی ہیں۔انسان دوستی ان کے کلام کا خاصا ہے۔کہتے ہیں
اِس دورِ جفا کیش میں ایمان کہاں ہے؟
مسجودِ ملائک تھا جو انسان کہاں ہے؟
اسی غزل کے دوسرے شعر میں عدل و انصاف کے بارے میں کہتے ہیں
تا حشر رہے بحرِ تلاطم میں مقید
جس سے مرا انصاف ہو میزان کہاں ہے؟
یہ وہ سوالات ہیں جو آج بھی تشن جواب ہیں۔ رہی بات محبت کی تو وہ شاعر ہی کیسا ہے جو میکد محبت کا میخوار نہ ہو۔آپ سراپا محبت اور شاعرِ محبت ہیں۔کہتے ہیں
تم اگر پھول ہو ، صبا میں ہوں
تم ہو گر روشنی ، دیا میں ہوں
ہم بچھڑ کر بھلا جئیں کیسے
تم دعا ہو، مگر صلہ میں ہوں
بطورِ سائنسدان قدرت نے آپ کو حقیقت آشنا بنایا اور بطورِ شاعر آپ کو درد آشنا بنایا۔ دماغ اور دل کے ملاپ نے آپ کو ڈاکٹر شاہد ندیم بنادیا
٭٭٭

 

LEAVE A REPLY

Please enter your comment!
Please enter your name here