”سیاسی انجینئرنگ”

0
3
ماجد جرال
ماجد جرال

فوجی ترجمان کی حالیہ پریس کانفرنس نے ملک کی سیاسی فضا میں نئی بحث چھیڑ چکی ہے،پریس کانفرنس کا انداز جارحانہ، زبان سخت اور عمران خان پر تنقید براہِ راست تھی لیکن اس پوری گفتگو کے باوجود وہ بنیادی سوال اپنی جگہ موجود رہا کہ کیا اسٹیبلشمنٹ ماضی میں کی گئی سیاسی مداخلت کی ذمہ داری قبول کرنے کے لیے تیار ہے؟پاکستان کی سیاسی تاریخ میں یہ تلخ حقیقت بارہا سامنے آتی رہی ہے کہ بعض ادوار میں ریاستی اداروں نے براہ راست یا بالواسطہ طور پر سیاسی عمل میں ایسے کردار ادا کیے جنہوں نے جمہوری ڈھانچے کو کمزور کیا۔ کچھ سیاسی رہنمائوں کو مضبوط کرنے، کچھ جماعتوں کو کمزور کرنے، اور بعض بیانیوں کو فروغ دینے کے فیصلے بند کمروں میں کیے گئے، جن کے اثرات آج بھی سیاسی عدم استحکام کی صورت میں موجود ہیں۔ اس کا فارمولا اعتراف وہ یوٹیوبر اور ولاگر بھی کرتے ہیں جن کو بند کمروں میں اس وقت کے اپوزیشن جماعتوں کے خلاف شواہد دکھائے گئے، جو نا تو کبھی پاکستان کی عدالتوں میں پیش کیے جا سکے اور نہ ہی ان کی تصدیق کرنا آج رونے والے ان جانبازوں نے کرنا گوارا کی۔ترجمان کی پریس کانفرنس میں عمران خان پر سخت تنقید کی گئی، مگر اس سے زیادہ اہم بات یہ ہے کہ یہ وضاحت نہیں کی گئی کہ عمران خان کو سیاسی میدان میں بطور ”تجربہ”متعارف کروانے والوں کا احتساب کس سطح پر ہے۔ ریاستی پالیسیوں اور منصوبوں میں غلطیاں ایک فرد کا مسئلہ نہیں ہوتیں بلکہ وہ ادارہ جاتی فیصلوں کے تحت سامنے آتی ہیں۔ اس لیے صرف ایک سیاسی رہنما کو مواخذے کا نشانہ بنانا اصل مسئلے سے توجہ ہٹانے کے مترادف ہے۔گزشتہ برسوں میں جس طرح سیاسی انجینیئرنگ کے ذریعے ایک مخصوص بیانیہ قائم کیا گیا، جس طرح سیاسی وفاداریاں تبدیل کرائی گئیں، اور جس طرح انتخابی عمل کو من پسند نتائج کی طرف دھکیلا گیا۔یہ سب آج ملکی سیاست کے بحران کی بنیاد بن چکے ہیں۔ پریس کانفرنس میں ان باتوں کا اعتراف تو نظر نہیں آیا، مگر لہجے کی تلخی اور دفاعی انداز اس امر کی نشاندہی کر رہے تھے کہ ماضی کے یہ سیاسی تجربات اب ادارے کے لیے ہی مسائل پیدا کر رہے ہیں۔پاکستان میں جمہوریت اسی وقت مستحکم ہوگی جب ریاستی ادارے خود کو اس عمل سے مکمل طور پر الگ رکھیں۔ سیاسی قیادت کی کامیابی یا ناکامی کا فیصلہ عوام کے ہاتھ میں ہونا چاہیے، نہ کہ ان مراکز میں جہاں سیاسی فیصلے طاقت کے توازن کو دیکھ کر کیے جاتے ہیں۔ ہر بار کی انجینئرنگ نے سیاسی نظام کو کمزور کیا، اداروں کو متنازع بنایا، اور عوامی اعتماد کو متزلزل کیا۔یہ حقیقت اپنی جگہ مسلم ہے کہ ملک موجودہ حالات میں مزید سیاسی تجربات کا بوجھ اٹھانے کے قابل نہیں۔ سیاسی رہنماں کی غلطیاں اپنی جگہ، مگر ریاستی اداروں کی غلطیاں زیادہ دور رس اثرات رکھتی ہیں۔ اگر ایک سیاسی رہنما غلط انتخاب تھا تو اسے قوم پر مسلط کرنے کا فیصلہ بھی غلط تھا اور اس کی ذمہ داری سے صرف نظر کرنا تاریخ سے نظریں چرانے کے مترادف ہے۔پاکستانی عوام اس سوال کا جواب مانگتے ہیں کہ جب سیاسی قیادت کو “تجربہ گاہ” بنا دیا جاتا ہے تو کیا اس کے نتائج کا بوجھ بھی عوام ہی اٹھاتے رہیں گے؟ کیا مستقبل میں بھی ایسی منصوبہ بندیوں کا سلسلہ جاری رہے گا جن میں عوامی رائے کو ثانوی حیثیت دے دی جاتی ہے؟ یہ سوالات کسی ایک سیاسی جماعت یا رہنما سے متعلق نہیں، بلکہ ریاست کے آئینی ڈھانچے اور اداروں کی ساکھ سے جڑے ہیں۔ملک کو اس وقت جس چیز کی ضرورت ہے وہ محض وضاحت نہیں، بلکہ ایک واضح قومی عزم ہے: آئندہ سیاست میں کسی قسم کی مداخلت نہیں ہوگی۔ اقتدار کا راستہ صرف ووٹ سے گزرے گا۔ سیاسی جماعتیں اپنی قیادت خود چنیں گی۔ عوام اپنی پسند خود طے کریں گے۔ اور ادارے اپنی آئینی حدود کے اندر رہ کر ملک کے دفاع اور استحکام پر توجہ دیں گے اگر اس راستے پر سنجیدگی سے عمل کیا گیا تو سیاسی نظام مضبوط ہوگا، معیشت کو استحکام ملے گا، اور عوام کا اعتماد واپس آ سکے گا۔ بصورتِ دیگر، ہر پریس کانفرنس، ہر تنقیدی بیان، اور ہر وضاحت صرف ایک ہی حقیقت کو چھپانے کی ناکام کوشش ہوگی کہ سیاسی انجینیئرنگ نے ریاست کو نقصان پہنچایا، اور اس کی قیمت آج بھی قوم ادا کر رہی ہے۔
٭٭٭

 

LEAVE A REPLY

Please enter your comment!
Please enter your name here