پی ٹی آئی فوج آمنے سامنے !!!

0
3

پی ٹی آئی
فوج آمنے سامنے !!!

اس وقت پاکستان اپنی تاریخ کے ایک ایسے موڑ سے گزر رہا ہے جبکہ سیاسی محاذ آرائی اپنی بلندیوں کو چھو رہی ہے، فوج اور پی ٹی آئی کی قیادت آمنے سامنے آ چکے ہیں جوکہ ملکی اتحاد کے لیے ڈراونے خواب سے کم نہیں ہے ،ملک اس وقت معیشت، داخلی کمزوری، بیرونی دبائو اور سرمایہ کاری کے مسلسل انحطاط کے باعث شدید دبائو میں ہے، ریاست کے ادارے اپنی جگہ دبائو کا شکار ہیں اور قومی بیانیے میں اعتماد کا فقدان نمایاں ہوتا جا رہا ہے۔ ایسے ماحول میں ملک کو سب سے بڑھ کر جس چیز کی ضرورت ہے وہ وفاقی وحدت اور صوبائی ہم آہنگی ہے۔سیاسی اختلاف اپنی جگہ مگر ریاستی نظام کا تسلسل،آئینی سمت اور مرکز وصوبوں کا متفق رہنا ایک معاشی ضرورت بن چکا ہے۔پاکستان کی تاریخ میں سول ملٹری تعلقات ہمیشہ ایک حساس موضوع رہے ہیں۔ بعض اوقات غلط فہمیاں پیدا ہوئیں، کبھی افواہوں نے ماحول دھندلا کر رکھا، اور کبھی سیاسی بیانیے نے ریاستی اداروں کے کردار کو مشکوک بنانے کی کوشش کی۔ تاہم اس تعیناتی نے برسوں سے جاری اس ذہنی انتشار پرخطِ تنسیخ پھیر دیا ہے۔ یہ فیصلہ نہ صرف آئینی تقاضوں کے مطابق ہوا بلکہ ریاست کے مختلف ستونوں کے درمیان اعتماد کے ایک نئے دور کی شروعات کا تاثر بھی دے گیا۔ پہلی بار ایسا لگا کہ ملک استحکام کی جانب بڑھ رہا ہے۔یہ حقیقت ہے کہ پاکستان اس وقت اپنے دونوں ہمسایوں بھارت اور افغانستان کے ساتھ تنائو کے دور سے گزر رہا ہے۔ مشرقی سرحد پر بھارت کیساتھ حالیہ کشیدگی، جنگ جیسے حالات، لائن آف کنٹرول پر فائرنگ کے واقعات اور بھارت کے اندرونی سیاسی حالات نے صورتحال کو مزید حساس بنا دیا ہے۔ ایسے ماحول میں دفاعی قیادت کا مضبوط اور واضح ہونا انتہائی اہم تھا، اور فیلڈ مارشل عاصم منیر نے اپنی حکمت عملی اور تحمل مزاجی سے ثابت کیا کہ وہ نہ صرف اس منصب کے حقدار ہیں بلکہ خطے کے بدلتے حالات کو سمجھنے کی صلاحیت بھی رکھتے ہیں۔دوسری طرف افغانستان میں دہشت گرد تنظیموں کی سرگرمیاں، انکی پاکستان میں کارروائیاں، اور کابل انتظامیہ کا غیر سنجیدہ طرز عمل مسلسل تشویش کا باعث بنا ہوا ہے۔ پاکستان نے ایک بار پھر واضح کر دیا کہ سرحد پار سے ہونیوالے حملے کسی صورت برداشت نہیں ہونگے۔ اس پس منظر میں دیکھا جائے تو چیف ا?ف ڈیفنس فورسز کا کردار صرف عسکری قیادت تک محدود نہیں رہتا بلکہ قومی سلامتی، سفارتی حکمت عملی اور داخلی استحکام میں بھی انکا عملی اور فکری کردار اہم ہے۔ افغانستان کے ساتھ جھڑپوں میں جس انداز میں ردعمل دیا گیا، وہ اس بات کی نشاندہی ہے کہ پاکستان اب غیر ضروری تحمل یا یکطرفہ صبر کے بجائے ایک متوازن اور مضبوط پالیسی کی طرف بڑھ رہا ہے۔اسی دوران تحریک انصاف نے ایک بار پھر وہی روش اختیار کی جو پچھلے چند برسوں سے اس جماعت کا خاصہ ہے۔ فیلڈ مارشل عاصم منیر کی تعیناتی جیسے سنجیدہ اور قومی نوعیت کے معاملے کو بھی پارٹی کے اندر موجود مخصوص سوچ کے حامل گروہ نے متنازع بنانے کی کوشش کی۔ حیرت کی بات یہ ہے کہ پی ٹی آئی کے کئی بڑے یوٹیوبرز نے وہی نکتہ اٹھایا جو بھارتی میڈیا مسلسل پیش کر رہا تھا۔ یہ ایک عجیب سا منظر تھا جیسے دونوں جانب یکساں بیانیہ چل رہا ہو، صرف زبان بدل جائے۔ یہ سیاسی نابالغی نہیں بلکہ بدقسمتی ہے کہ ایک ایسی نازک گھڑی میں جب ملک کو اتحاد اور یکجہتی کی ضرورت تھی، تحریک انصاف نے ایک مرتبہ پھر اپنی تنقیدی سیاست کو ریاست سے بالا تر رکھا۔نتیجے میں پی ٹی آئی نہ صر ف منظر سے آئوٹ ہوگئی بلکہ اپنا سیاسی نقصان بھی خود اپنے ہاتھوں مزید گہرا کر بیٹھی ہے۔ملک ایک ایسے موڑ پر کھڑا ہے جہاں سے یا تو ترقی کا سفر شروع ہو سکتا ہے یا پھر سیاسی لڑائیوں اور بے اعتمادی کا سلسلہ ایک بار پھر ہمیں پیچھے دھکیل سکتا ہے۔ مگر اس بار امید زیادہ ہے۔ وجہ صرف فیلڈ مارشل عاصم منیر کی تعیناتی نہیں، بلکہ وہ سیاسی اور ریاستی ہم آہنگی ہے جس کے آثار اب واضح ہونے لگے ہیں۔حکمران سنجیدگی دکھائیں تو واقعی پاکستان آگے بڑھ سکتا ہے اْس جگہ تک جہاں عوام کو محسوس ہو کہ ریاست صرف اعلان نہیں کرتی، عمل بھی کرتی ہے۔
٭٭٭

LEAVE A REPLY

Please enter your comment!
Please enter your name here