ڈاکٹر سخاوت حسین سندرالوی
امریکہ میں مقیم پاکستانی آہستہ آہستہ مصائب والام میں گھرتے جارہے ہیں ۔ ڈوبتے کو تنکے کے سہارے کے باعث وہ جہاں امید کی کرن نظر آتی ہے، رابطہ کرتے ہیں مگر انہیں مایوسیوں کے سوا کچھ نہیں ملتا ۔ امیگریشن کے قوانین سخت سے سخت ہوتے جارہے ہیں ، پکڑ دھکڑ جو کی توں ہے ، بعض اوقات تو یوں لگتا ہے جیسے قائد اعظم کے ہم وطنوں کے لیے امریکہ کی سرزمین تنگ ہو گئی ہے ۔
یہی وجہ ہے کہ صرف خوف وہراس کے سبب ذہنی طور پر ہر پانچواں پاکستانی پابرکاب بیٹھا ہے کہ طبل کوچ بجے اور وہ فوراً اپنے مادر وطن چلے ۔ وہ طبقہ جو امیگریشن کی صعوبتوں سے گزررہا ہے اسکی تجارت کا ملیا میٹ ہو گیا ہے ۔ وہ سمجھتا ہے کہ اگر چند سال بعد وہ امیگریشن لینے میں کامیاب بھی ہو گیا تو تب تک مالی طور پر ختم ہوچکا ہوگا ۔
میں جب اتوار کے روز درس قرآن کیلئے بروکلین جاتا ہوں تو یہ لگتا ہی نہیں کہ یہ وہی لٹل پاکستان ہے ۔ کونی آئی لینڈ ایونیو کے ہراسٹور پر سراسمیگی سی چھائی ہوئی ہے ، دن بدن سختیاں بڑھ رہی ہیں ۔ شرائط میں اضافہ ہو رہا ہے ۔
روز گار کے ذرائع محدود ہو رہے ہیں جو1000ڈالر ہفتہ بتاتے تھے ،اب مر کے اپنے بل ہی پورے کررہے ہیں ۔ بعض تو بل تک نہیں دے پا رہے ۔ فوڈ بزنس جو ہمیشہ سرپلس میں ہوتا تھا اب بریک ایون سے بھی گرتا دکھائی دے رہا ہے ۔ آیا ایک ملین کے لگ بھگ پاکستانی آہستہ آہستہ پاکستان جانا شروع ہو جائیں ؟
ہر گز یہ راہ حل نہیں ہے اور نہ ہوسکتا ہے ۔ ویل سیٹ لوگ کہیں ہماری بلا سے ہم تو یہاں سیٹ ہیں ۔ انہیں بھی مسائل در پیش ہیں وہ انکی اولاد کی بابت، انکی اولاد ہاتھ سے نکلی جارہی ہے ۔ پاکستانیت تو درکنار انکے وجود سے اسلام تک معدوم نظر آرہا ہے ۔ گویا امریکہ میں مقیم کوئی پاکستانی خود کو مسائل سے ماورا نہیں سمجھ سکتا ہے ۔
ہر ایک کو کوئی نہ کوئی مسئلہ در پیش ہے ۔ اگر پیسے کا نہیں اولاد کا ، اولاد کا نہیں تو مائیگریشن کا ، جاب کا نہیں تو سکون قلب کا ، اپنا نہیں تو رشتہ داروں کا، خونی رشتہ داروں کا نہیں تو دوستوں کا ، صحت کانہیں تو روحانیت کا ۔
اگر پاکستانی ایک کمیونٹی کے طور پر مضبوط بنیادیں استوار کرتے تو آج نہ ہی امگریشن میں ان کی زیادہ قطاریں لگتیں اور نہ ہی ڈیپوٹیشن آرڈرز کے انبار لگتے ۔ میرے بہت سارے دوست مجھ سے ہمیشہ اختلاف کرتے ہیں مگر میں آج بھی پازٹیو ہوں کہ پاکستانی ایک محنتی، ملنسار، ہمدرد، شریف اور پابندروایات قوم ہے مگر اسے رہنمائی کے فقدان نے ختم کردیا ہے ۔
حقیقی رہنمائی نہ خود ساختہ اسے پھر سے زندہ کرنے کے لیے قیادت کی ضرورت ہے جسکا فقدان تو نہیں کہنا چاہیے بہتات کہنی چاہیے کہ ایسے لگتا ہے پاکستان میں سب قائد ہی پیدا ہوتے ہیں کارکن پیدا نہیں ہوتے ۔ قائد اعظم اس لیے کامیاب ہوئے تھے کہ انہوں نے خود کو کارکن سمجھا تھا ۔
ہمارے بقلم خود قائد ، لیڈر سربراہ ، صدر ، چیئرمین ممتاز سیاسی راہنما، ممتاز مذہبی پیشوا، ممتاز عالم دین، شیر پاکستان ، فخر پنجاب اور نہ جانے کیا کیا بننے کا رواج ہے ۔ وہ قومیں ختم ہو جاتی ہیں جو قوم کی تعمیر کو شخصیتوں کے نام ونمود کے لیے ترک کردیں ، پیشہ ور چندہ لینے والوں کی کوئی کمی نہیں ہے ۔ ڈرائنگ روم کی سیاست کرنے والوں کی بہتات ہے ۔
نت نئی انجمن بنتی ہے ۔ نت نیا سنٹر کھلتا ہے ۔ ایسے لگتا ہے جیسے ہمارے ہم ہر قومیت کا درد اپنے دل میں لے کر بیٹھے ہوں ۔ مگر اپنی قوم کی بیٹیاں ہندوﺅں کے شیلٹرز میں ہیں ۔
11ستمبر کے بعد کتنے معاونتی دفاتر کھلے اور بند ہو گئے ، مگر قم پستی رہی اور پس رہی ہے۔ا مریکہ میں اس وقت یہودیوں کے بعد دوسری تاجر قوم ہندو ہے جسکا بندہ جب گجرات کاٹھیاوار ، بمبئی یا کسی اور شہر سے چلتا ہے تو یہاں والوں کو معلوم ہوتا ہے اسکے سارے بنیادی کام بشمول امیگریشن، سوشل سکیورٹی، رہائش اور روزگار قوم کے ذمے ہوتے ہیں ۔
سکھوں کے گردوارے میں تو باقاعدہ ہاسٹلز بنے ہیں جہاں انہیں خوش آمدید کہا جاتا ہے اور فوراً انہیں روزگار پر لگا دیا جاتا ہے ۔
ہمارے کسی قومی ادارے پر ایسی کوئی سہولت نہیں ہے کہ نیویارک میں اترنے والا ایک رات مہمان رہ سکے ۔ ہمارے ہم وطنوں میں مستقل بنیادوں پر کام کرنے کا رواج ہی نہیں ہے ۔
سیاست دانوں کی طرح یہاں کے بزرگان قوم بھی جذبات سے کھیل رہے ہیں اس وقت ہماری قوم کا بڑا طبقہ کینیڈا میں کرب ورنج کے دن گزاررہا ہے ۔ ان میں سے اکثر وہ ہیں جنہیں اپنوں نے ہی دھوکا دیا ہے ۔ کتنے نیم وکلاءکے ہاتھوں ڈسے گئے ہیں ۔ کتنوں کو صحیح انفارمیشن نہ ملنے کے سبب نقصان ہوا ۔ کتنے رومیٹ کے غیر ذمہ دارانہ ایکٹ کے سبب ملک بدر ہو گئے کہ جب کینیڈا پہنچے تو پتہ چلا کہ انکا گرین کارڈ میٹ میں آچکا ہے ۔ مگر رومیٹ نے حسد کے باعث نہیں دیا تھا کتنوں کو صرف ایو ڈیوئیٹ آف سپورٹ نہ ملنے سے ملک چھوڑنا پڑا ۔
کتنے ہم وطنوںکو پیسے والے اسپانسر کرسکتے تھے مگر نہیںکیا ۔ مجھے کتنے ایسے دکھی لوگوں نے کال کیا ہے ، جنکے گھر تک اسی پاداش میں اجڑ گئے ۔ کتنے تو سرپر ہاتھ رکھ کر رو رہے ہیں کہ نیم قانونی فرموں یا اداروں نے اسپانسر کے بہانے انہیں لوٹ لیا اور انکا کیس فائل تک ہی نہیں ہوا ۔
اپرووتو کیا ہوگا ؟ میری مودبانہ درخواست ہے کہ دیگر قوموں سے سبق حاصل کریں یا اپنے مصیبت زدہ ہم وطنوں سے عبرت پکڑیں اور شعبدہ بازی ، خود ثنائی، خود پسندی ، لیگ پلنگ ، شکایت بازی ، انتقام پروری ، جھوٹی شان وشوکت، طفل تسلیوں اور جذبات سے کھیلنے کی بجائے ایک زندہ قوم کے طور پر آگے آئیں۔
ہماری قوم میں نہ تو ٹیلنٹ کی کمی ہے ۔ نہ وسائل کی ۔ اہل خیر بھی ہیں، خرچ کرنے والے بھی ہیں ۔ درد بھی رکھتے ہیں پھر اپنے آپ کو قربان کرکے قم کو بچانے کے لیے کوئی مناسب اقدام کیوں نہیں کرتے ؟ امریکہ میں اپنے حقوق کے تحفظ کے لیے بہر حال ہمیں حکومت کا حصہ بننا ہوگا اور مداریوں کے چنگل سے غریب وسادہ قوم کو نجات دلانا ہوگی ۔
اللہ کرے پاکستانی بھی امریکہ میں ایک منظم قوم بن کر ابھریں اور اپنی روایات کا پرچار کرتے ہوئے مسائل کے شکار ہم وطنوں کو مشکلات سے نجات دلائیں ۔ چیلنجز بہت ہیں مگر اللہ مدد کرے گا ۔