گزرے وقت کی داستان!!!

0
307
انصار الرحمن
انصار الرحمن

انصار الرحمن

وقت گزر جاتا ہے اور اپنی یادیں چھوڑ جاتا ہے، ہم کراچی میں تھے۔ وقت عافیت اور سلامتی کے ساتھ مصروفیت میں گزرتا تھا۔ مولانا شفاعت صاحب نے کہا تھا کہ ایک سال سے ہمارے پاس آرہے ہو۔ جب بارش ہو رہی ہو اس وقت بھی آتے ہو۔ پابندی سے آئے ہو اور کبھی ناغہ نہیں کرتے۔ بہت دن ہوگئے ہیں اس دوران تم نے جو کچھ بھی دیکھا‘ سنا یا سیکھا ہے لوگوں کو خود بتاﺅ۔ ان کی رہنمائی کرو کہ وہ بھولے ہوئے وقت کو پھر یاد کرلیں اور جہاں تک ہوسکے قرآن شریف اور احادیث نبوی کی ہدایات پر پابندی سے عمل کرلیں۔ ہماری بیٹی کی شادی ہوچکی تھی اور وہ اپنے شوہر کے ساتھ امریکہ چلی گئی تھی۔ ہمارے منجھلے بیٹے حماد میاں کے اکثر سسرالی رشتہ دار امریکہ میں تھے۔ وہ بھی ایک دن اپنی بیگم کے ساتھ امریکہ چلے گئے اور خوشگوار ماحول میں زندگی بسر کرنے لگے۔ اہلیہ محترمہ کچھ عرصہ قبل اپنی بیٹی اور بیٹے سے ملنے کیلئے امریکہ ہو آئی تھیں۔ہم نے کبھی لمبا سفر نہیں کیا تھا جب بھی کہیں جانا ہوتا ٹرین سے جاتے۔ اگر سفر لمبا ہوتا تو اوپر مچان میں لیٹ کر سو جاتے۔ راستے میں بڑے بڑے سٹیشنوں پر اترتے اور نمکین اور میٹھی چیزوں کا لطف اٹھاتے۔ ہوائی جہاز کا پہلا سفر کراچی سے حیدر آباد کا کیا تھا جو جلدی ہی ختم ہوگیا تھا۔ اب امریکہ کا سفر تھا اور ہم تھے۔ قدم قدم پر احتیاط کو مدنظر رکھتے ہوئے آگے بڑھتے جلدی ہی ہوائی جہاز میں پہنچ گئے۔ فلائٹ دبئی ہوکر جاتی تھی۔ چند گھنٹے دبئی میں رکتی تھی۔ جائے نماز ساتھ لے گئے تھے۔ ایک جگہ زیادہ دیر جہاز رکا تو ہم نے وہاں نماز ادا کی۔ بالآخر امریکہ پہنچ گئے۔ یہ شہر ہیوسٹن تھا۔ یہاں ہمارا بیٹا حماد رہتا تھا۔ سامان کی چیکنگ کئے بغیر کسٹم آفیسر نے ہم سے کہا کہ آپ جا سکتے ہیں۔ ہم بڑے حیران ہوئے کہ پاکستان میں تو جب تک خوب اچھی طرح تلاشی نہیں لی جاتی سب کچھ کھنگال کر نہیں دیکھ لیا جاتا جانے ہی نہیں دیتے۔ ہمارے سامان میں دو سوٹ کیس تھے۔ ایک سوٹ کیس نظر نہیں آیا۔ پوچھا تو بتلایا گیا کہ وہ ساتھ ہی نہیں آسکا۔ دوسری فلائٹ سے پہنچ جائے گا۔ اپنا پتہ لکھوا دیں۔ دوسرے دن وہ سوٹ کیس گھر پہنچ گیا۔ ایئرپورٹ سے باہر جانے کیلئے نکلے تو حماد میاں مسکراتے ہوئے نظر آئے۔ہم نے پاکستان کے چند بڑے شہروں کا سفر کیا تھا۔ پبلک کا آنا اور جانا دیکھا تھا۔ اب جو نظر پڑی تو گاڑیوں کی قطاریں رواں دواں دیکھیں۔ اگر کوئی موٹر سائیکل گزرتی تو ایسا محسوس ہوتا جیسے کہ بھونچال آگیا ہو۔ گاڑیوں کا اژدھام دیکھ کر یہ محسوس ہوتا جیسے کہ گاڑیوں کی بارات جارہی ہو۔ سفر لمبا تھا ذوق و شوق ساتھ تھا۔ تھکن جلد ہی دور ہوگئی۔ لوگوں کو ہماری آمد کا معلوم ہوتا تو وہ پہلے ٹیلی فون کرتے۔ ملاقا ت کیلئے وقت لیتے پھر آتے۔ ان ہی دنوں ہیوسٹن میں ایک روحانی معالج کا بہت شہرہ تھا۔ بڑے بڑے لوگ اس سے ملاقات کیلئے جاتے۔ ریڈیو‘ ٹیلی ویژن اور اخبارات میں اس کا بہت تذکرہ ہوتا۔ ہر طرف اس کی دھوم مچی ہوئی تھی جس سے بھی پوچھا اس نے یہی کہا کہ کوئی بڑی شخصیت ہے جس نے اودھم مچائی ہوئی ہے۔ اس کی شہرت اور ہر جگہ اس کا تذکرہ سن کر خفیہ پولیس والے بھی چوکنا ہوئے کہ آخر یہ کون ہے۔ ایف بی آئی نے تحقیق شروع کی تو اچانک وہ قلندر صاحب غائب ہوگئے۔ ڈھونڈنے سے بھی نہیں ملے۔ کب گئے اور کہاں چلے گئے۔ بعد میں یہ بعید کھلا کہ وہ دراصل ایک ہندو تھا جو مسلمان کے روپ میں لوگوں سے ملاقاتیں کرتا۔ ان کے مسائل حل کرنے کا بتلاتا اور آنے والوں سے خاصی رقم وصول کرتا۔ امریکہ میں اخبارات ہر ہفتہ شائع ہوتے ہیں اور بلا کی قیمت کے بڑے ہوٹلوں‘ مسجدوں اور سٹوروں پر مل جاتے ہیں۔ اس وقت ہم نے یہاں کا جو ماحول دیکھا تھا وہ بہت اچھا تھا۔ کون شخص ہے جس کی زندگی میں مشکلات اور تکلیفیں نہیں ہوتیں۔ بیماریاں بھی ساتھ ساتھ چلتی ہیں۔ اس لئے اکثر لوگ پریشان رہتے ہیں۔ آجکل کی دنیا میں سکون اور چین صرف چند لوگوں تک محدود ہوکر رہ گیا ہے۔ دین سے لاتعلقی کا نتیجہ یہ نکلا ہے کہ کوئی کسی کو خوش دیکھ ہی نہیں سکتا۔ ان ہی باتوں نے جھوٹ‘ بے ایمانی‘ دھوکہ اور فراڈ کو پنپنے کا وقت دیا ہے۔ پاکستان میں قدم قدم پر خود ساختہ روحانی معالج اور عامل کامل بیٹھے ہیں۔ یہاں امریکہ اور کینیڈا میں یہ کام اکثر میکسیکن اور کالے کررہے ہیں۔ جادو کرنا اور کرانا حرام ہے۔ کسی بھی شخص کیلئے کسی دوسرے کیلئے مشکلات پیدا کرنا اور تکلیفیں دینے کا تصور ہی ہمارے مذہب میں نہیں ہے لیکن مذہب سے دور رہنے سے یہ سب کچھ اب ہونے لگا ہے۔ لوگوں کی اکثریت اپنی خود ساختہ پریشانیوں اور تکلیفوں کے سبب غلط ہاتھوں میں پھنستی جارہی ہے۔ اب تو خیر قدم اور آگے بڑھ گئے ہیں۔ اکثر و بیشتر لوگوں کے پاس قرآن شریف پڑھنے اور احادیث نبوی کو دیکھنے اور سمجھنے کا وقت ہی نہیں ہے۔ نماز بلا کسی عذر کے پانچوں وقت پڑھنا ہر مسلمان مرد و عورت کیلئے ضروری ہے۔ اکثر لوگ نماز ہی نہیں پڑھتے۔ قرآن شریف اٹھا کر اوپر رکھ دیتے ہیں۔ شادی بیاہ کے موقع پر دولہا دلہن کو ان کے نیچے سے گزارا جاتا ہے اور بس یہ ایک رسم رہ گئی ہے۔ عام طور پر مسلمان مرد نماز پڑھنے کیلئے مسجد میں نہیں جاتے اگر کوئی شخص چلا بھی گیا تو مسجد میں بار بار اپنے موبائل کو کھول کر دیکھتا رہتا ہے۔ موبائل فون نے اکثر و بیشتر گھروں کا چین و سکون ختم کردیا ہے۔ سوتے سوتے فون دیکھا جاتا ہے۔ مائیں اپنی جان چھڑانے کیلئے چھوٹے بچوں کو اپنا موبائل دے دیتی ہیں کہ وہ اس پر کارٹون دیکھںی۔ وہ جو چاہیں دیکھیں‘ پوچھنے والا کون ہے۔ شروع شروع میں ہم جب یہاں آئے تھے یہاں کی دنیا اور ہی تھی۔ لوگ اپنی پرشانیوں اور مشکلات و بیماریوں کا بتلاتے۔ ان کی رہنمائی کی جاتی جو لوگ قرآن شریف پڑھے ہوئے ہونے کا اقرار کرتے ان کو قرآن شریف سے پڑھنے کیلئے بتلایا جاتا۔ احادیث کی دعائیں پڑھنے کی تاکید کی جاتی اور پرچہ پر لکھی ہوئی احادیث ان کو دے دی جاتیں جو یہ سب کچھ نہیں کرسکتے تھے ان کو قرآن شریف اور احادیث نبوی اور تعویزات لکھی ہوئی زعفرانی پرچیاں دی جاتیں کہ پانی میں ڈال کر پئیں۔ اللہ تعالیٰ کے فضل و کرم سے ان کے مسائل حل ہوتے چلے جائیں گے۔ اس کے عوض معمولی سا ہدیہ لیا جاتا جو غریب اور پریشان حال لوگوں کے کام آتا۔ آجکل کیا کچھ ہورہا ہے وہ یہ کہ اکثر و بیشتر لوگ فیس بک اور واٹس اپ پر لگے رہتے ہیں۔ اس پر جو بھی کچھ بتلایا جاتا ہے بغیر سوچے سمجھے اس پر عمل کرتے ہیں۔ بتلانے والا ہر شخص مفتی اور عالم بنا ہوا ہوتا ہے اور اپنے آپ کو عقل کل ظاہر کرتا ہے۔ سوچے سمجھے بغیر کسی بھی بات پر عمل کرنا دانش مندی کے خلاف ہے۔ آخر میں اپنے بہن بھائیوں سے ایک گزارش کرنی ہے۔ وہ یہ ہے کہ ہمارے دو دوست پڑوس یا رشتہ دار اس دنیا سے جا چکے ہیں۔ وفات پا چکے ہیں جن کا انتقال ہوچکا ہے اس کیلئے روزانہ ایصال ثواب کردیا کریں۔ یہ کوئی مشکل کام نہیں ہے جو بھی آیتیں یا سورتیں یاد ہیں ان کو بار بار پڑھیں اور اس کا ثواب ان کو بھی بخش دیں۔ قرآن شریف دیکھ کر اگر پڑھنا ہوا تو وضو کرنے کی ضرورت ہوتی ہے ورنہ نہیں جن کو قرآن شریف کی کوئی سورہ یا آیت یاد نہ ہو وہ الحمدللہ‘ سبحان اللہ‘ اللہ اکبر بار بار پڑھ کر اس کا ثواب بخش سکتے ہیں۔ کہیں آنا جانا ہو تو کان میں گانے لگانے کے بجائے اگر یہ نیک کام کرلیا جائے تو بڑا اچھا ہوا۔ اللہ تعالیٰ ہمیں ان نیکیوں کو سمیٹنے اور ان پر عمل کرنے کی توفیق دے۔ ایک درخواست اور ہے وہ یہ کہ ہماری کتاب سکون اور صحت کا مطالعہ کریں اس سے معلومات میں بہت اضافہ ہوگا۔

LEAVE A REPLY

Please enter your comment!
Please enter your name here