شبیر گُل
عورت کے لغوی معنی “کو ڈھکی چ±ھپی “ رہنے والی چیز کہا گیا ہے۔ جیسا کہ رسول اللہ نے فرمایا عورت پردہ کی چیز ہے۔ جب وہ بے پردہ باہر نکلتی ہے تو شیطان ا±سے ا±چک ا±چک دیکھتا ہے۔
حقوق نسواں کا سب سے بڑا علمبردار ،دین اسلام ہے جس میں عورت کی عزت اور مساوات کو مقدم رکھا گیا ہے۔ مغربی دنیا اور مغربی تہذیب سے متاثر زدہ عناصر، بڑی بے باکی کے ساتھ حقوق نسواں کو سر نامہ سخن بناتے ہیں اور اسلام کی غلط تصویر پیش کرتے ہیں۔ دین اپنی مرضی اور خواہشات کا نام نہیں ہے کہ اپنی خواہشوں کو بے لگام چھوڑ دیں ، یہ باغی ہو جائیں تو حلال وحرام ،جائز و ناجائز کچھ نہیں دکھتا۔
حقوق نسواں کے نام پر چند طلاق یافتہ ، لزبین ، بازار حسن کی آنٹیاں ، چند لبرل اور مادر پدر آزاد۔ موم بتی مافیا ، آئندہ چند روز بعدعورت مارچ کرینگی۔ حقوق نسواں کے نام پر اسلام اور نظریہ پاکستان کو گالی دیتی نظر آئیں گی۔
جن کی پ±شت پر میڈیا اور ٹی وی پر بیٹھے چند کرائے کے ٹٹو ضمیر فروشی کرینگے۔میڈیا اینکرز،قلم کی حرمت اور اپنی اخلاقی غیرت کو چند ٹکوں میں بیچ کر ، بہو بیٹیوں کی بے توقیری کرینگے،آج انکو لگام دینے کی ضرورت ہے۔اگر باحیا اور عزت دار عورتیں فحاشی اور عریانیت کے پروموٹرز کے خلاف باہر نکل آئیںتو انگریزوں کی یہ بدبودار باجیاں نظر نہیں آئینگی۔بے حیائی کی علمبردار آنٹیوں کو ،اگر حیا دار عورتوں نے پیٹنا شروع کردیا تو سول سوسائٹی کے چند نام نہاد بونے واویلا شروع کردینگے،ہیومن رائٹس کی بات کرینگے۔قوم کو اس برائی کے خلاف میدان میں آنا ہوگا۔
آقاءدو جہاں نبی¿ کریم جناب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ہے ، کہ جب ب±رائی دیکھو تو ا±سے ہاتھ سے مٹا دو ، یہ طاقت نہ ہو تو ا±سے زبان سے سمجھاو¿ ، اگر یہ طاقت بھی نہ ہو تو ا±سے دل میں ب±را جانو۔ یہ ایمان کا کمزور ترین درجہ ہے۔ کیا آج ہمارے اندر ب±رائی کو روکنے یا بولنے کی حس ختم ہو گئی ہے۔ قارئین ! کیا ہم اللہ کومعبود مانتے ہیں۔ ؟رسول اللہ کو نبیءآخر زماں مانتے ہیں ؟
قرآن کو اللہ کی آخری کتاب مانتے ہیں ؟
کیا قرآن کو کتاب ہدایت مانتے ہیں ؟
اگر مانتے ہیں تو پھر بے حیائی کی اس یلغار کے خلاف آپکی زبان کیوں گ±نگ ہے۔ آپکے چہرے پر شکن کیوں نہیں آتی۔ آپکی غیرت جوش کیوں نہیں مارتی۔ اگر بے حیائی ، ننگے پن پر آنکھیں بند ، زبان اور قلم خاموش ہے ، تو سمجھ لیجئے، بے حیائی اور بے شرمی کے جراثیم آپکے اندر سرائیت کر چکے ہیں ،اپنی فکر کیجئے کل کلاں یہ جراثیم آپکے گھروں اور آپکی اولاد کی اندر سے ایمان، غیرت اور حیاءختم کرسکتے ہیں ،اپنے تکبر سے باہر آئیے۔ اپنا جائزہ لئجیے۔
ہم کسی طرح بھی ریت کے ان ذروں سے زیادہ قدروقیمت اور حیثیت کے مالک نہ تھے جو ریگستان میں پڑے پڑے صبح و شام نامعلوم کتنی گردشیں گزار دیتے ہیں اور کسی کی بھی نگاہوں میں ان کی کوئی وقعت نہیں ہوتی لیکن ہم پر ہمارے مالک کا یہ احسان تھا کہ اس نے ہمارے دلوں پر کلمہ طیبہ کے روشن سورج کو چمکایا اور اس کی تابانی اور حرارت میں سے ہم کو بھی حصہ عنایت فرمایا جن کی شعاعوں نے ،شرم ،حیائ، پاکیزگی ،روشنی و زندگی کا یہ خزانہ ہم تک منتقل کیا، ان میں سے زیادہ موثر اور سب سے زیادہ تیز شعاع وہ تھی جو رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے عطاءکی ، وہ تھی تہذیب و تمدن ، اخلاق و کردار اور سب سے بڑھ کر انسانیت۔ چند متکبر اور واہیات عورتیں اپنے ننگے پن سے معاشرے کے خ±سن کو پراگندہ کرکے اپنے اندر کی غلاظت کو آشکارا کر رہی ہیں ، میرا جسم میری مرضی دراصل بازار ح±سن کا کلچر ہے جہاں عورت ہر شام کئی بار بکتی ہے۔ غیرمردوں کے سامنے کپڑے اتارتی ہے۔
کچھ روز پہلے کسی خودک±ش حملہ آور نے کہا ان عورتوں کو ا±ڑانا جائز ہے ، کسی نے کہا یہ ٹھیک نہیں۔ ا±س کا کہنا تھا کہ میرا جسم میری مرضی۔چند فاحشہ اور بیہودہ ، ہمارے معاشرے میں بے غیرتی کا بیج بونا چاہتی ہیں۔
اسلام نے عورت کو جو مقام ،عزت اور وقار دیا ہے ، کسی معاشرے نے نہیں دیا،یہ مادر پدر آزاد ،لبرل مافیا ، کپڑے اتارنے کو حقوق نسواں کا نام دیتا ہے۔ ننگا ہونے کو مرد سے برابری کا درجہ دیتا ہے، یہ طبقہ روزانہ نئے مرد کے ساتھ سونے کو آزادی کا نام دیتا ہے۔
حقوق نسواں کے نام پر مغرب سے پاﺅنڈ اور ڈالر وصولنے والے یہ چند عناصر ، زرا مغرب سے ہی عورت کا حال پوچھ لیں۔ جو آزادی اور میرا جسم میری مرضی کے نام پر کئی مردوں سے ،مختلف کلر کے بچے پیدا کرتی ہیں اور یہ حرامی بچے نہیں جانتے کہ ا±نکا باپ کون ہے۔
80 فیصد یورپئین اور امریکن بغیر شادی کے رہتے ہیں۔ بچے پیدا کرتے ہیں۔ جو بیس فیصد شادی کرتے ہیں ، ا±ن میں سے بھی ستر فیصد جوڑے علیحدہ ہو جاتے ہیں، خاندانی سسٹم تباہ ہے۔
پاکستانی میں چند غلیظ عورتیں ایسا ہی ماحول چاہتی ہیں۔ چند درجن فاحشائیں پورے معاشرے کو گندگی کا ڈھیر بنانا چاہتی ہیں۔ جو انشاءاللہ کبھی نہیں ہو گا۔ یہی بد چلن اور بد کار عورتیں ہیں جو گھروں سے بھاگی ہوئی بچیوں کو ا±کسا کر ماں باپ کے خلاف کورٹ میں کھڑی ہوتی ہیں۔ میڈیا پر والدین کی عزت تار تار کی جاتی ہے۔ مغربی میڈیا پر ، اسکا پراپگنڈہ کیا جاتا ہے ، کہ عورت گھٹن کے ماحول میں ہے۔ جن کو یہ تہذیب یافتہ معاشرہ کہتی ہیں ، انکی تنگ نظری کا یہ عالم ہے کہ حجاب پر پابندی
ہے ، تہذیب یافتہ امریکہ اور یورپ میں روزانہ سینکڑوں عورتوں سے جنسی زیادتی کی جاتی ہے۔
ڈیموکریٹک سوسائٹی اور دنیا کی سب سے بڑی جمہوریت کی مثالیں دینے والے اینکرز ،کشمیر میں بربرئیت اورمسلمان عورتوں سے آبروریزی ،جنسی زیادتی۔مسلمان کی جلتی املاک اور مسخ شدہ لاشوں پر کچھ کہنامناسب سمجھیں گے۔ ؟ پاکستانی اسٹبلشمنٹ کو ٹرمپ کی بھارت میں تقریر کو انتہائی سنجیدہ لینا چاہئے۔ پاکستان کا نام لینے پر بغلیں نہیں بنانی چاہئیں۔ گجرات میں کھڑے ہو کر بھارت کو سب سے بڑی جمہوریت اور مہذب قوم قرار دے رہاہے۔ مودی کو امن پسند کہہ رہا ہے۔ اس نے این آر سی۔ سی اے اے۔ ایم پی آر۔ 270 کے بارے کچھ نہیں کہا۔ 200 دن سے کرفیو ہے۔ اسی لاکھ کشمیری قید ہیں۔ اس پر جمہوریت کے چیمپئن ٹرمپ نے کچھ نہیں کہا۔بغلیں نہ بجائیں۔اللہ نے قرآن میں فرمایا ہے۔ یہ تمہارے کبھی دوست نہیں ہو سکتے۔
مغربی ثقافت کی یلغار کی پروردہ یہ وہ چند بے حیاءعورتیں ہیں جو ہالینڈ جیسی غیرمہذب تہذیب چاہتی ہیں جہاں بہن ،بھائی سے اور ماں بیٹے سے سیکس ریلیشن قائم رکھنا عام سے بات ہے۔
یہ وہ بے شرم مافیا ہیں جو پاکستان میں لزبین بن کر رہ رہی ہیں۔ انکی شکلوں پر اللہ کی پھٹکار ، اور نخوست ٹپک رہی ہوتی ہے۔ یہ وہ بدبودار مرد نما عورتیں ہیں ، جن کے منہ کے گٹر کا ڈھکن کھلتے ہی تعفن محسوس ہوتا ہے۔
یہ مادر پدر آزاد ننگے ،وہ حرام خور ہیں جو نظریہ پاکستان، نظریہ اسلام پر بہونکتے ہیں۔
قارئین ! جب نظریہ پاکستان ،اور نظریہ اسلام کے خلاف بات ہوگی تو مجھ جیسے خاکساروں کا خون کھول اٹھتا ہے۔ دن رات ، پاکستان،اسلام اور اسلامی تہذیب کو گالی بکنے والی دو ٹکے کی چند داشتائیں ہیں ، جو بے دین ہیں۔ اپنا جسم بیچنا ،اپنے کپڑے اتارنا فخرسمجھتی ہیں۔ عورت کے کردار سے نسلوں کی شناخت ہوتی ہے اور ا±س کا کردار موجودہ اور آنے والی جنریشن آئینہ دار ہوتا ہے۔ مجھے اس سے کوئی سروکار نہیں کہ میرے الفاظ کی سختی کو لوگ محسوس کرینگے۔مجھے سروکار ہے ا±س نظرئیے سے جو فاطمہ بنت محمد رسول اللہ کا ہے۔پاکستان میں بسنے والے رائٹ ونگ کے نظریاتی لوگوں کوچاہئے کہ ان بے حیاو¿ں کو نشان عبرت بنا کر غیرت کا ثبوت دیں۔