الیکٹرک وہیکل انڈسٹری، پاکستان میں رکاوٹیں درپیش

0
393

اسلام آباد:

2020 برقی گاڑیوں کا سال ہے۔ ڈیزل اور پیٹرول سے چلنے والی گاڑیاں بنانے والی تمام کمپنیاں اس نئی ٹیکنالوجی کو اپنانے کی دوڑ میں ہیں۔ برقی کار مکمل طور پر بجلی سے چلنے والی ( آل الیکٹرک وہیکل) یا پھر پلگ ان ہبرڈ الیکٹرک وہیکل (پی ایچ ای وی) بھی ہوسکتی ہے جو بجلی کے ساتھ پیٹرول سے چلتی ہے۔

رواں برس برقی گاڑیوں کے 30 نئے ماڈل پیش کیے جا رہے ہیں۔ ناروے 2025ء اور چین اور انڈیا نے 2030ء تک پیٹرول اور ڈیزل سے چلنے والی گاڑیوں سے مکمل طور پر نجات پانے کا ہدف مقرر کیا ہے۔ امریکی کمپنی ٹیسلا رواں ہفتے اپنی دس لاکھویں برقی کار بنا رہی ہے۔ جرمن کمپنی فوکس ویگن 2025 تک برقی کاروں کے 50 ماڈل تیار کرنے کے لیے 66 ارب ڈالر سے زائد کی سرمایہ کاری کر رہی ہے۔ عالمی رجحان اور کاربن کے اخراج اور اسموگ پر قابونے کے لیے پاکستان میں وزارت ماحولیاتی تبدیلی نے نومبر 2019 میں اختراعی الیکٹرک وہیکل پالیسی کا اعلان کیا تھا جس میں متعدد ٹیکسوں میں چھوٹ دی گئی ہے۔

ان رعایتوں کے باوجود آئندہ 10 سال میں گاڑیوں کی فروخت میں برقی گاڑیوں کا حصہ 30 فیصد ہوگا۔ نئی پالیسی کو سب نے خوش آمدید کہا۔ خبروں کے مطابق اوڈی، بی ایم ڈبلیو، ہنڈائی، نسان اور رینالٹ نے پاکستان میں برقی کاریں تیار کرنے میں دل چسپی ظاہر کی ہے۔ علاوہ ازیں کچھ مقامی گروپ بھی اس مقصد کے لیے عالمی کارساز اداروں کے ساتھ معاہدے کررہے ہیں۔ تاہم پاکستان میں برقی کارسازی کی راہ میں کئی بڑی رکاوٹیں ہیں۔

 

نئی پالیسی کا اعلان ہوتے ہی مقامی مارکیٹ پر اجارہ رکھنے والی کئی کمپنیوں کی جانب سے اس کی مخالفت شروع ہوگئی۔ ان کے ساتھ نان الیکٹرک کار اسمبلی یونٹ لگانے والے نئے کھلاڑی بھی شامل ہو گئے۔ پھر وزارت صنعت اور وزارت ماحولیاتی کے مابین بھی اس میدان میں جنگ جاری ہے۔ اس صورتحال میں عالمی سطح پر رونما ہونے والے اس تغیر کو اپنانا ایک چیلنج سے کم نہیں ہوگا۔ موجودہ آٹوانڈسٹری اور اس کے حامیوں کو سمجھنا ہوگا کہ جب بھارت، ترکی اور تھائی لینڈ جیسے کارساز ممالک اپنی پالیسیوں کو ڈبلیو ٹی او کے لوکلائزیشن کے قانون سے ہم آہنگ کررہے ہیں تو پاکستان کو بھی ایسا نہیں کرنا چاہیے۔ جن ممالک نے نئے قوانین کو اپنایا وہاں کارساز صنعت ترقی کررہی ہے۔

 

LEAVE A REPLY

Please enter your comment!
Please enter your name here