کرونا وائرس اور مستقبل میں اس کے اثرات!!!

0
445
کامل احمر

کامل احمر

آج پیر 16 مارچ ہے اور شام کا وقت ہے اور دنیا بھر سے کرونا وائرس کے تعلق سے پریشان کن خبریں آرہی ہیں، اب تک کے اعداد و شمار کے مطابق یورپ میں 24 ہزار افراد کرونا وائرس سے متاثر ہوئے ہیں، ایران میں 14 ہزار، سپین میں 7 ہزار، امریکہ میں 3400، ۔ دنیا بھر میں ورلڈ ہیلتھ اارگنائزیشن کے تحت 169446 افراد اس وائرس کا شکار ہو چکے ہیں اور چھ ہزار پانچ سو افراد زندگی کی بازی ہار چکے ہیں، آبادی کے لحاظ سے سب سے زیادہ لوگ اٹلی میں اس وائرس کی زد میں آئے ہیں، تقریباً 25 ہزار اور 1800 سو افراد زندگی سے ہاتھ دھو چکے ہیں جبکہ اٹلی کی آبادی ساڑھے چھ کروڑ ہے، 2018ءکے اعداد و شمار کے مطابق یہ وباءچین کے شہر ووہان سے شروع ہوئی تھی اور تازہ اعداد و شمار جو وائرس کی زد میں آئے ہیں 182438 ہیں اور 7390 اموات ریکارڈ میں ہیں، آبادی کے تناسب سے دیکھا جائے تو اٹلی کرونا کی زد میں دوسرے ملکوں سے زیادہ متاثر ہو اہے، وہاں کی حکومت نے وائرس کے پھیلاﺅ کو روکنے کیلئے بڑے بڑے شہر بند کر دیئے ہیں اور لوگوں کو اپنے اپنے گھروں میں رہنے کا پابند کر دیا ہے جس پر عمل جاری ہے، امریکہ اپنی آبادی 33 کروڑ کے لحاظ سے ابھی اتنا آفت زدہ نہیں ہوا ہے جتنا یورپ ہو اہے، ایران اور چین، ایران کو اس موذی وائرس کو کنٹرول کرنے میں شدید دُشواری کا سامنا ہے کہ امریکہ نے بہت سی اشیاءپر پابندی عائد کر دی ہے۔
سب سے تیز وباءپر قابو پانے میں چین کا نمبر ہے کہ وباءکے شروع ہوتے ہی انہوں نے پندرہ دن کے اندر اندر چار بڑے بڑے ہسپتال آرمی کی مدد سے بنا دیئے جہاں صرف کرونا وائرس کے مریضوں کا علاج، انہیں الگ تھلگ رکھ کر کیا گیا۔ ابھی تک اس وباءکو ختم کرنے کی ویکسین بنانے میں چین اور امریکہ میں دوڑ جاری ہے، جبکہ واشنگٹن اسٹیٹ میں اس ویکسین کو ٹیسٹ کیا جا رہا ہے، چین کا دعویٰ ہے کہ وہ جلد ہی استعمال شروع کر دے گا، فی الحال کرونا زدہ مریض کا علاج اسے الگ تھلگ رکھ کر کیا جا رہا ہے یہ وباءعمر رسیدہ لوگوں کی اکثریت کو شکار بنا رہی ہے اور چین میں عمر رسیدہ لوگوں کی تعداد سب سے زیادہ ہے، اس وباءکی پہچان کہ کوئی شخص اس کی زد میں آچکا ہے یا نہیں بظاہر نزلہ، کھانسی، بخار، حلق کا کشک ہو جانا، سانس لینے میں دُشواری کے علاوہ نمونیا بھی ہے، اس صورت میں مریض کو چاہیے کہ وہ خود کو الگ تھلگ کر لے اور کسی سے ملنے سے پرہیز کرے۔ خیال رہے یہ وائرس سانس کے ذریعے سفر نہیں کرتا بلکہ ایک دوسرے سے ہاتھ ملانے، دروازے کے ہینڈل، ٹرینوں اور بسوں میں سفر کے دوران دوسروں کو اپنی زد میں لے لیتا ہے، امریکہ میں وفاقی حکومت سے کاﺅنٹی لیول پر حکام دن رات شہریوں کو میڈیا کے ذریعے لمحہ بہ لمحہ معلومات فراہم کر رہا ہے، اسکولوں، کالجوں کو بند کر دیا گیا ہے۔ کئی شہروں جن میں نیویارک، مین ہیٹن سر فہرست ہے کے تمام ہوٹلوں میں داخلہ بند ہے۔ صرف ویب سائٹ پر کھانے کا آرڈر دے کر خود پک کریں یا پھر UBER کو کال کریں۔
سب سے زیادہ نقصان ٹریول اور ٹورزم کا ہو رہا ہے کہ ملک امریکہ کے اندر سفر کرنے والوں کی تعداد بے حد کم ہو کر رہ گئی ہے، امریکہ نے یورپ سے آنے والی فلائٹس پر مکمل طور پر پابندی عائد کر دی ہے صرف امریکی شہری ہی آسکتے ہیں ادھر کینیڈا میں بھی اسی طرح کے سخت اقدامات اٹھائے گئے ہیں جہاں کے وزیراعظم کی اہلیہ کرونا کا شکار وہ چکی ہے لیکن اب روبصحت ہو رہی ہے، صدر ٹرمپ نے فیڈرل ریزرو کو زیرو فیصدی پر قرض دینے کو کہا ہے اس پر عملدرآمد ہو چکا ہے، ساتھ ہی ایک کثیر رقم دوسری پارٹی کی مشاورت سے بڑے بڑے بزنس، بنک، ایئر لائنز وغیرہ کو مدد کے طور پر فراہم کی جائےگی کہ وہ اپنا خسارہ پورا کر سکیں، عوام کیلئے کوئی بڑا قدم نہیں اٹھایا گیا ہے، نیو جرسی کے شہر بوکن میں پابندی لگائی گئی ہے۔
ادھر نیویارک، نیوجرسی اور کنیکٹی کٹ کے گورنروں نے رات آٹھ بجے سے صبح 5 بجے تک لوگوں کو سفر کرنے پر احتیاط برتنے کو کہا ہے، مزید یہ کہ 50 سے زیادہ لوگوں کو کسی ایک جگہ جمع ہونے پر پابندی ہے اور بہت سی اسی طرح کی احتیاطیں دوسرے شہروں اور کاﺅنٹیز میں لگائی جا رہی ہیں۔
پچلے دس دنوں سے پورے امریکہ میں کھانے پینے کی اشیاءکے علاوہ باتھ روم کے ٹشو پیپر اور پانی کی بوتلیں نایاب ہوتی جا رہی ہیں، کئی اسٹوروں میں ٹشو پیپر کے بنڈلز اور پانی کی بوتلوں پر گاہکوں میں چھینا جھپٹی اور دنگا فساد بھی دیکھنے میں آیا ہے کہ مینجروں کو پولیس کی مدد لینی پڑی ہے، خیال رہے 90 فیصدی امریکن باتھ روم میں ٹشو پیپر کا استعمال کرتے ہیں، انہیں فکر ہے کہ اگر انہیں گھر میں قید ہونا پڑا (جس کے امکانات کافی زیادہ ہیں) تو وہ کیا کرینگے۔ لہٰذا 27 کروڑ میں سے اگر 25 کروڑ لوگوں کو ٹشو پیپر درکار ہیں تو فیکٹریز بند ہونے کی شکل میں کہاں سے آئینگے لہٰذا وہ جتنا زیادہ اسٹاک کر سکتے ہیں کر رہے ہیں۔
کل کیا ہوگا کچھ نہیں معلوم وال اسٹریٹ میں Dow Jons کے شیئر 10 فیصد گرنے سے کچھ وقت ٹریڈنگ بند رہی ہر قسم کا شہر بری طرح متاثر ہوا ہے ایک بھگدڑ مچی ہوئی ہے خوف کے بادل چھا رہے ہیں۔ امریکن اسٹوروں پر کھانے کی اشیاءسوائے پانی کے پرانے نرخوں پر دستیاب ہیں لیکن پاکستانی ہلال گوشت اور گراسری پر قیمتیں بڑھ چکی ہیں، ہر چیز مہنگے داموں بکری کا گوشت جو ساڑھے سات ڈالر (سالم بکرہ خریدنے پر) تھا اب 10 ڈالر پونڈ اور مرغی 3 ڈالر پونڈ بک رہی ہے۔ اسی طرح پاکستانیوں کے 99 فیصد اسٹور میں قیمتیں دوگنی سے زیادہ کر دی گئی ہیں چونکہ چین سے عرصہ تک سپلائی بند رہے گی اس کا فائدہ ہمارے پاکستانیوں نے اٹھایا ہے۔ چاول آٹا، دال سبزی سب کی قیمتیں بڑھا دی گئی ہیں۔ اور نتیجہ میں نیو جرسی کی دوکان کو قیمتوں میں خرد برد کرنے کے الزام میں 80 ہزار ڈالر جرمانہ کیا گیا ہے۔ مساجد میں بہت کم تعداد میں لوگ جا رہے ہیں، خانہ کعبہ کا منظر تو دیکھا ہوگا۔ وائرس تو چلا جائے گا لیکن امریکنوں کو کمر توڑ مہنگائی کا سامنا کرنا پڑے گا۔ انتظار کیجئے۔
٭٭٭

LEAVE A REPLY

Please enter your comment!
Please enter your name here