امریکا میں 17 لاکھ اموات کا خطرہ!!!

0
131
مجیب ایس لودھی

مجیب ایس لودھی، نیویارک

ابتدا میں صرف چین تک محدود رہنے والے کورونا وائرس نے بڑے بڑے ترقی یافتہ ممالک کو اپنی گرفت میں لے لیا ہے ، اٹلی ، جرمنی ، ایران اور دیگر ممالک کورونا وائرس کے سامنے بے بس دکھائی دے رہے ہیں اور تاحال امریکہ میں بھی اس وائرس سے نمٹنے کے لیے کوئی خاص ویکسین یا طبی حکمت عملی نہیں اپنائی جا سکی ہے ، ماہرین کے مطابق کسی بھی وائرس اور مرض کیخلاف ویکسین بنانے کے لیے کم سے کم چھ ماہ کا عرصہ درکار ہوتا ہے ، طبی ماہرین وائرس کیخلاف ویکسین تیار کرنے کے لیے دن رات ایک کر رہی ہے ، اطلاعات کے مطابق جرمنی نے تو اس موذی مرض کیخلاف ویکسین تیار بھی کر لی ہے لیکن جرمنی کی جانب سے یہ ویکسین امریکہ کو دیئے جانے سے صاف انکار کر دیا گیا ہے ۔
امریکی ماہرین نے خبردار کیا ہے عالمی وبا کورونا وائرس کی وجہ سے امریکا کی 65 فیصد آبادی متاثر ہوسکتی ہے جبکہ17 لاکھ افراد کی ہلاکت کا بھی خدشہ ہے ، چین سے نکلنے والا کورونا وائرس دنیا کے 115 ممالک تک پھیل چکا ہے، اس سے بچنے کے لیے ان ممالک کی جانب سے مختلف اقدامات اٹھائے جا رہے ہیں۔اس کے ساتھ ماہرین کی جانب سے مسلسل انتباہ جاری کیا جا رہا ہے تاہم اب اس کیٹیگری میں امریکی ادارہ سینٹیرز فار ڈائزیس کنٹرول اینڈ پریوینشن (سی ڈی سی) نے بھی انتباہ جاری کر دیا۔
سی ڈی سی نے انتباہ جاری کیا ہے کہ کورونا وائرس کی وجہ سے امریکا میں بھی حالات سنگین ترین حد تک پہنچ سکتے ہیں۔ ادارے کا کہنا ہے کہ صرف امریکا کی 21 کروڑ 40 لاکھ آبادی کا 65 فیصد حصہ متاثر ہوسکتا ہے۔
اس حوالے سے اخبار نیو یارک ٹائمز نے رپورٹ شائع کی جس میں بتایا گیا کہ ایک ماہ قبل ہی سی ڈی سی کا بند کمرہ اجلاس ہوا، جس میں امریکی حکام برائے صحت اور دنیا کے معروف ماہر وبایات نے شرکت کی تھی۔ اس اجلاس میں ایک امریکی ماہر وبایات نے امریکا میں اس وبا کے پھیلنے کے چار مختلف منظرے نامے بتائے۔ انہوں نے بتایا کہ بد ترین منظر نامے میں 21 کروڑ 40 لاکھ لوگ تک متاثر ہوسکتے ہیں تاہم اگر اس حوالے سے فوراً اقدامات اٹھائے جائیں تو یہ تعداد کم ہوکر صرف 30 لاکھ لوگوں تک محدود کی جاسکتی ہے۔ ان میں سے ایک ماہر وبایات نے بتایا کہ آپ ضرورت سے زیادہ اقدامات کرنے کے بعد بھی اس کے خلاف نہیں جیت سکتے، یہ آپ کو گھبراہٹ کا شکار بنادیتی ہے، آپ کو بہت زیادہ محتاط رہنے کی ضرورت ہے۔ ہر مختلف منظرنامے میں ہر ایک متاثرہ شخص 2 سے 3 لوگوں کو متاثر کر سکتا ہے، ہسپتالوں میں یہ شرح 3 سے لے کر 12 افراد تک ہوسکتی ہے جبکہ ایک سے 25 فیصد لوگ مارے بھی جاسکتے ہیں۔
سنتے آئے ہیں بلکہ پورا ایمان و یقین بھی ہے کہ ”اللہ تعالیٰ کی لاٹھی بے آواز ہے“ جب پڑتی ہے تو بندے کو ہوش نہیں رہتا، میری توجہ موجودہ ”کرونا وائرس“ پر ہے، گزشتہ سال جس طرح مڈل ایسٹ میں اسرائیل نے شہر کے شہر کھنڈرات میں بدل دیئے اسی طرح شام، عراق، لیبیا اور فلسطین میں شہر کے شہر کھنڈرات میں بدلتے دیکھ رہے ہیں ۔معصوم مسلمان کو ہر جانب سے مار پڑ رہی ہے، صرف تیل کے کنوﺅں تک پہنچنے اور قبضہ کرنے کیلئے اسرائیل نے مظلوم و معصوم انسانوں کی پرواہ کئے بغیر صدیوں سے آباد شہروں کو تباہ و برباد کر دیا ہے ، نسلیں تباہ ہوگئیں، کوئی لاشیں اٹھانے والا بھی نہیں، عوام اپنی جانیں بچانے کیلئے کشتیوں میں یورپ کی جانب روانہ ہیں، کئی تو منزل تک نہ پہنچ سکے اور ان کی کشتیاں ہی ڈوب گئیں، جو بچ گئے ان کے ساتھ یورپی ممالک نے جس طرح کا برتاﺅ کیا ان کی تذلیل کی مثال آج تک نہیں ملتی اور مسلمان صرف اللہ تعالیٰ کی جانب آس لگائے بیٹھے ہیں کہ کب اللہ تعالیٰ کی جانب سے مدد آئے گی کیونکہ دنیا بھر میں کوئی بھی مسلم ملک ایسا نہیں جو ظالموں کو للکار سکے، مسلمانوں کی آواز بن سکے اور پھر اللہ تعالیٰ کی جانب سے قہر نازل ہوا جس کا نام کرونا وائرس ہے۔ اس کی زد میں ہر کوئی ہے، کسی بھی مذہب سے، نسل سے یا زبان سے تعلق رکھتا ہو ، اس کی زد سے نہیں بچ سکتا۔ اللہ تعالیٰ کی جانب سے ہلکا سا اشارہ ہے کہ معصوموں پر ظلم بند کر دو ورنہ اس سے بھی طاقتور عذاب آسکتا ہے۔ دنیا کی طاقتور معیشت چین میں جس طرح سے تباہی مچی اس کی معیشت تباہ ہو چکی ہے ۔ یاد رہے کہ وہاں پر ایک چھوٹے سے شہر میں مسلمانوں پر جس بدترین انداز سے ظلم ہوئے تھے اس کی مثال نہیں ملتی، بالآخر چین کے صدر کو خود چل کر مسجد میں آنا پڑا اور اس وبائی بیماری کرونا وائرس کے خاتمے کیلئے دعا کی اپیل کرنا پڑی، آج اس خطرناک وائرس نے پوری دنیا کو اپنی لپیٹ میں لے لیا ہے، اٹلی، جرمنی میں لوگوں کو گھروں میں بند کر دیا گیا ہے،ا مریکہ بھر میں ایمرجنسی نافذ کر دی گئی ہے، ہمارے صدر ٹرمپ کی زبان جس تیزی سے اسلامو فوبیا کا شکار تھی خاموش ہو چکی ہے ، ہر جانب خوف و ہراس ہے۔ لوگ اپنے اپنے گھروں میں محصور ہو چکے ہیں، سکول، کالج، تمام تعلیمی ادارے، حکومتی آفس بند ہو چکے ہیں۔ سڑکیں سنسان ہیں ،کسی کو بھی نہیں معلوم کہ آگے کیا ہونےوالا ہے، اسے کہتے ہیں اللہ تعالیٰ کا عذاب، وقت آن پہنچا ہے کہ تمام مذاہب کے لوگوں کو مل کر یکجا ہو کر اللہ تعالیٰ کے حضور سجدہ میں جا کر دل و جان سے اپنے کئے کی معافی مانگیں کیونکہ جس طرح اسرائیل و امریکہ نے مڈل ایسٹ میں معصوم و مظلوم لوگوں پر ظلم و ستم کیے، ان کی آہ و پکار اللہ تعالیٰ تک پہنچ چکی ہے ۔اب اللہ تعالیٰ کے قہر سے بچنے کا واحد راستہ حضورﷺ کی سنت پر عمل کرنا اور معافی مانگنا ہے، آئیے اس بات پر سنجیدگی سے عمل کریں اور عام زندگی میں نماز کو عام کریں ، نماز پابندی سے پڑھیں، اللہ تعالیٰ ہم سب کا حامی و ناصر ہو۔
٭٭٭

LEAVE A REPLY

Please enter your comment!
Please enter your name here