کیا یہ سیاست کا وقت ہے؟

0
266
جاوید رانا

جاوید رانا، بیوروچیفشکاگو
کرہ¿ ارض یعنی ساری دنیا گزشتہ تین ماہ سے جس کریہہ صورتحال سے دوچار ہے، انسانی جانوں کا جس طرح ضیاع ہو رہا ہے اور کرونا وائرس نے جس طرح زندگی کو منجمد کر دیا ہے اس کی خبریں روزانہ ٹیلیویژن، سوشل میڈیا اور دیگر ذرائع سے یقیناً آپ تک پہنچ بھی رہی ہیں اور آپ کے روز مرہ کے معمولات میں تبدیلی، احتیاطی تدابیر اور نظام زندگی پر اثرات سے بھی آپ کو آگاہی مل رہی ہے۔ ان حالات میں کہ جب ہر ملک اور ہر قوم اس وائرس کی تباہ کاریوں کے باعث ہر شعبہ¿ زندگی متاثر ہوا ہے عجیب بات یہ ہے کہ امریکہ سے لے کر پاکستان تک سیاسی جفادری اور ان کے پروردہ میڈیا کے شعبے باہم دست و گریبان ہیں۔ اپی سیاسی و مفاداتی منطق اور فلسفہ کے پیش نظر کسی نہ کسی حوالے سے مقابل، مخالف کےخلاف ہرزہ سرائی، الزام تراشی سے گریز نہیں کر رہے ہیں۔ امریکہ میں ہی دیکھ لیں، اور کچھ نہیں تو کرونا کے حوالے سے ہی ڈیمو کریٹس اور ریپبلکنز میں ہی جو تم پیزار ہو رہی ہے اس وائرس سے سب سے زیادہ متاثر ہونےوالی ریاست کے ڈیمو کریٹ گورنر اور صدر ٹرمپ کے درمیان وینٹی لیٹرز، ماسکس اور ہسپتالوں میں سہولیات کے حوالے سے تنازعتی کیفیت، دوسرے لفظوں میں ڈیمو کریٹس اور ریپلکنز کے درمیان اس حد تک پہنچ گئی ہے کہ ٹرمپ نے ہیلتھ پالیسی پر اسپیکر نینسی پلوسی کی تنقید پر اسے کُتیا تک گردان دیا۔ روز کا معمول بن چکا ہے کہ امریکی میڈیا اپنے اپنے پسندیدہ حوالوں سے جلتی پر تیل کا کام سر انجام دے رہا ہوتا ہے، نئے نئے مفروضات پر کرونا کے پھیلاﺅ کی ذمہ داری اور اس کے پس منظر پر حکومتی، انتظامیہ اور سیاسی مخالفین کے اوپر الزام در ازلام کا تماشہ لگایا جاتا ہے۔ اس بات کا بھی عندیہ دیا جاتا ہے کہ نومبر میں ہونےوالے انتخابات کے پیش منظر میں یہ سارا کھیل کھیلا جا رہا ہے دکھ کی بات ہے کہ اس وائرس کے نتیجے میں لاکھوں ہلاکتوں اور معاشی ابتری کی پیشگوئیوں کے باوجود سیاسی قوتیں ایک دوسرے کو مطعون کرنے میں مصروف ہیں اور مل کر اس قیامت صغریٰ کو مطعون کرنے میں مصروف ہیں اور مل کر اس قیامت صغریٰ کے تدارک کیلئے باہم اشتراک کیلئے نظر نہیں آتیں۔
امریکہ کی بات تو اپنی جگہ، پاکستان میں گو کہ کرونا کے مضمرات امریکہ یا یورپ جیسے نہیں مگر پھر بھی اس وباءنے اپنی تباہ کاریاں جاری رکھی ہوئی ہیں کہ ایک دن میں ہی متاثرین کی تعداد دو گنا ہو گئی ہے۔ حکومت، فوج اور صحت عامہ کے اداروں کی کوششیں اس وباءپر قابو پانے کیلئے مسلسل جاری ہیں اور اس کے کچھ مثبت اثرات بھی سامنے آئے ہیں۔ ہمارے ڈاکٹرز، پیرا میڈیکل اور رضا کار اپنی جانیں ہتھیلی پر رکھ کر اس موذی مرض کے خلاف لڑ رہے ہیں۔ میو ہسپتال کے ڈاکٹرز نے ملیریا کی دوائی کلوروکوئن اور اسٹرو مائیسن سے 18 مریضوں پر تجربہ کیا اور وہ الحمدللہ صحت یاب ہوئے۔ اسی طرح ڈاکٹر شمسی اور دیگر ڈاکٹرز صحت یاب افراد کے پلازما لے کر متاثرہ مریضوں کے علاج کا سلسلہ شروع کر دیا ہے جو یقیناً خوش آئند ہے یقیناً یہ سب مثبت اشارئیے ہیں لیکن دوسری جانب سیاسی چشمکیں بھی جاری و ساری ہیں اور میڈیا بھی اس میں اپنا مفاداتی حصہ اپنے ممدوہین کے ناطے سے ڈال رہا ہے۔ بلاول بھٹو کے کرونا وائرس کے حوالے سے وزیراعظم سے یکجہتی کے اعلان کے باوجود سندھ حکومت اور وفاق میں غیر ہم آہنگی اور شکوے شکایات کا سلسلہ اور شہباز شریف کی لندن سے وائرس کے تدارک کیلئے واپسی اور حکومت و قوم کےساتھ جدوجہد کا دعویٰ اور وطن آکر وہی سیاسی ذمہ فرسائیاں اس حقیقت کی نشاندہی ہیں کہ یہ لوگ ابھی بھی اپنی سیاستوں کے دھارے سے باہر نہیں آرہے ہیں۔ خود عمران خان کے اور ان کے ساتھیوں کے روئیے بھی کچھ مثالی نہیں ہیں وزیراعظم کا تمام سیاسی و پارلیمانی جماعتوں کے اجلاس سے اپنے خطاب کے بعد لنک منقطع کرنا اور مخالفین کی بات نہ سننا ایک مثال ہے کچھ ایسی ہی مثالیں مزید بھی ہیں مثلاً ٹائیگر فورس کی شرٹس کی پی ٹی آئی کے رنگوں میں تیاری جس پر خاصی خطیر رقم (45 کروڑ) کا خرچہ، فردوس عاشق اعوان کی مسلسل حزب اختلاف پر سنگ باری اور دیگر افراد کا شوز میں بیٹھ کر بے جا مباحثہ کرنا وغیرہ وغیرہ۔ اس سارے ہنگام میں چینلز کی ڈرامہ بازی اور معاملہ کو متنازعہ بنا کر ریٹنگ بڑھانے یا اپنے سیاسی و گروہی مفاد کو ہوا دینے کا عمل بھی اس آزمائش کے وقت میں عوام یا ملک کے مفاد میں نہیں۔
قارئین کو یاد ہوگا، آٹے اور چینی کے بحران پر اپنے کالم میں ہم نے اظہارِ خیال کرتے ہوئے کپتان کو آگاہ کیا تھا کہ وہ اپنے دائیں بائیں بھی نظر ڈالیں کہیں ایسا نہ ہو کہ بعد میں کپتان کو کہنا پڑے کہ!
دیکھا جو تیر کھا کے کمیں گاہ کی طرف
اپنے ہی دوستوں سے ملاقات ہو گئی
اب جو رپورٹس آئی ہیں تو وہی ہوا کہ کپتان کے اپنے ہی معتمد اس تمام کھیل کے اہم کردار نکلے۔ وزیراعظم کا ان رپورٹس کو منظر عام پر لانے کا اقدام یقیناً انتہائی بولڈ اور تاریخی قدم ہے اور اس کی جتنی بھی تعریف کی جائے کم ہوگی کہ تمام تر دباﺅ دھمکیوں کے باوجود انہوں نے اس سے گریز نہیں کیا لیکن اس کےساتھ ہی سیاسی مخالفت و پراپیگنڈے کا بازار گرم ہو گیا۔ا س میں ان کے مخالف اور حلیفی، خود اپنی ہی پارٹی کے ملوث لوگ بھی شامل ہیں۔ تفصیل میں جائے بغیر ہم صرف اتنا ہی عرض کرینگے کہ شوگر بحران کی وجہ ECC کی سفارش پر کابینہ کی ایکسپورٹرز کو سبسڈی دینے کی منظوری تھی۔ عموماً سبسڈی کرشنگ کے وقت پر نہیں بلکہ گنے کی کاشت پر اضافی پیداوار پر دی جاتی ہے تاکہ کاشتکاروں کو فائدہ زیادہ ہو اور ایک اسٹڈی کے مطابق ایکسپورٹرز کو کم لاگت پر برآمد کرنے کیلئے صرف 12 سے 13 فیصد کا حصہ ملتا ہے لیکن طاقتور شوگر مافیا، جس میں ہر سیاسی جماعت کے رہنما، بیوروکریٹ اور شوگر ایجنٹ شامل ہیں۔ اس کا فائدہ اٹھاتا ہے۔ رپورٹ میں بالکل واضح ہے کہ اس کے سب سے بڑے بینفشری جہانگیر ترین خسروبختیار، اور شمیم احمد تھے جو کپتان کے قریبی ہیں جبکہ اس میں مریم نواز کے سمدھی چودھری منیر اور چودھری مونس الٰہی بھی سامنے آئے ہیں اب صورتحال یہ ہے کہ ایک سیاسی ہنگامہ برپا ہو گیا ہے ن لیگ اور پیپلزپارٹی کے لوگ اس معاملے میں وزیراعظم کو مورد الزام قرار دے رہے ہین وجہ یہ کہ کابینہ کی منظوری وزیراعظم کی سربراہی میں ہوئی، ادھر جہانگیر ترین مختلف چینلز پر بیٹھ کر بالواسطہ وزیراعظم پر تنقید کر رہے ہیں۔ وزیراعظم کے حمایتی اینکرز، تجزیہ نگار اور کالم نویس وزیراعظم کی تعریف کے قلابے ملا رہے ہیں اور مخالفین اسے وزیراعظم کی حکومتی نا اہلی اور فیصلہ سازی کی ناپختگی قرار دےتے ہوئے اسٹیبلشمنٹ کی ان سے مایوسی اور نئے سیٹ اپ کی باتیں کر رہے ہیں۔ ایک ایسے وقت کہ جب کرونا کا آسیب دنیا بھر کی طرح پاکستان میں بھی اپنی ہولناکیاں دکھا رہا ہے کیا سیاسی تماشہ بازی کسی کو بھی زیب دیتی ہے یا ایک زندہ قوم کی طرح اس موذی مرض وائرس سے نجات کی جدوجہد اجتماعی یکسوئی وقت کی ضرورت ہے یہ اہم نکتہ ہے جس پر ہماری سیاسی اشرافیہ و میڈیا کو خصوصاً سوچنا ہوگا۔
٭٭٭

LEAVE A REPLY

Please enter your comment!
Please enter your name here