کرونا وائرس کی تباہ کاریاں!!!

0
741
سید کاظم رضوی
سید کاظم رضوی

سید کاظم رضوی

تمام قارئین کی خدمت میں سید کاظم رضا کا سلام پہنچے، آپ دنیا میں جہاں بھی ہوں اس عفریت کرونا سے محفوظ رہیں اوراللہ تعالیٰ آپکے اہل و عیال کوبھی محفوظ بنائے جس تیزی سے وقت گزرتا جارہا ہے، دنیا میں اتنی ہی بے چینی اور مایوسی بڑھ رہی ہے، اس کی وجہ ہر روز سینکڑوں اورہزاروں کی تعداد میں ہونے والی اموات اور اس کے نتیجے میں پیدا ہونے والے مسائل ہیں، ہر کسی کا کوئی نہ کوئی جاننے والا یا تو چل بسا ہے یا انتہائی نگہداشت کے شعبے میں دعاﺅں اور دواﺅں سے اپنی زندگی اور موت کی جنگ لڑ رہا ہے۔
کرونا وائرس سے متاثر عوام الناس بلا تفریق جس تیزی سے اس مرض کا شکار ہیں ،اسی ردعمل کے طور پر ہر روز دنیا کے سربراہان ایک نیا بیان داغ رہے ہیں جبکہ دو عالمی طاقتیں اس موضوع پر ایک دوسرے کو بڑے محتاط انداز میں مورد الزام قرار دے رہی ہیں آپ جس کا بیان بھی سنیں جب حقائق اور ثبوتوں کی بات ہو تو دونوں ہی اپنی جگہ سچے لگتے ہیں ،دو بڑی افواہیں جو اس بیماری کی وجوہات بیان کی جارہی ہیں ان میںپہلی فارما کمپنیوں کی بددیانتی اور ذرائع ابلاغ میں اثر و رسوخ کے ذریعے خوف پیدا کرنا پھر اس کی ویکسین بیچنا اور مال بنانا اس حوالے سے کچھ اعداد و شمار بھی بیان کیے جارہے ہیں جن میں تازہ مثال ذیابیطس کی دواہے جس کی لاگت دو ڈالر اور بیچی ڈھائی سو ڈالرمیں جاتی ہے جبکہ جان بچانے والی ویکسین تو انتہائی مہنگے نرخوں پر من مانی قیمت پر بیچی جائیگی دیگر اس سے صحت پر مبنی درپیش مسائل کو جواز بناکر قوانین بھی تبدیل ہونگے اور مخصوص طاقتور خاندانوں کو موقع ملے گا کہ کمزوروں کا اور زیادہ استحصال ہو!!
دوسری وجہ فائیو جی نیٹ ورک کا خاموش ٹیسٹ اور اسکے ردعمل میں اچانک کرونا کا حملہ آور ہونا کچھ ایسی ویڈیوز بھی وائرل ہوئیںجن میں ووھان چائینہ میں ایک فائیو جی اینٹینا کا تباہ کردیا گیا اور اس کے قریب ایک درخت کو بھی دکھایا گیا جس رخ سے وہ اینٹینا کی طرف تھا وہاں کے پتے جل کر خشک ہوگئے تھے !!
اس بابت ایک پاکستان ٹیلی ویژن کراچی کے سینئر انجینئر سے رابطہ کیا کہ اس ریڈیو فریکوئنسی پر بات کی جائے جسکا حوالہ کچھ ویڈیوزمیں دیا جارہا ہے، انہوں نے نام ظاہر نہ کرنے کی شرط پر بتایا دوران سروس جو لوگ پندرہ برس یا اس سے زیادہ سروس کرچکے تھے ،ان سب کے یہاں اولاد نرینہ نہ تھی، یہ انکا ذاتی خیال ہے جس سے اتفاق کرنا ضروری نہیں جبکہ بے خوابی کا مسئلہ اور گہری نیندبے وقت آنے کے مسائل کا شکار بھی وہ لوگ تھے جو لوگ اس وقت ٹرانسمیٹر روم میں کام کرتے رہے، اس وقت تحقیق نہ تھی لیکن انجینئرز آپس میں یہ بات کیا کرتے تھے، ٹرانسمیٹر روم میں انجینئرز کی موجودگی لازمی تھی اور اس کے جسم کو براہ راست مقناطیسی لہروں اور طاقتور برقی مقناطیس کا سامنا تھا کیونکہ بسا اوقات اِن پٹ± سگنل کو ایڈجسٹ کرنا پڑتا تھا ،اس وقت آٹو میٹک فریکوئنسی ایڈجسٹ منٹ نہ تھی، وہ انجینئر اس وقت امریکہ منتقل ہوچکے ہیں اور یہاں مستقل سکونت اختیار کرلی ہے۔ ( جاری ہے )
٭٭٭

LEAVE A REPLY

Please enter your comment!
Please enter your name here