رمضان اور مستحقین کی ضروریات!!!

0
672

رمضان المبارک کے آغاز پر وزیر اعظم عمران خان نے کہا کہ کورونا سے ساری دنیا پریشان ہے۔ جن افراد کو اللہ تعالیٰ نے دوسروں کی مدد کرنے کی استعداد عطا کر رکھی ہے انہیں رمضان المبارک میں عبادات اور ماحول کو محفوظ بنانے کے ساتھ ساتھ محروم طبقات کی مدد کرنی چاہیے۔ اسلامی عبادات کی روح اجتماعی اصلاح اور اجتماعی رجوع الی اللہ کے تصور پر ہے۔ سماجی معاملات میں عبادات کو شامل کیا گیا ہے۔ بنیادی شعائر میں سے زکوٰة‘ روزہ اور حج کی اجتماعی فکر پر زور دراصل ایسے سماج کی تشکیل ہے جو اسلامی تعلیمات کے مطابق پروان چڑھ سکے۔ رمضان المبارک رحمت کا مہینہ ہے۔ مسلمان سحر سے غروب آفتاب تک اللہ کے حکم پر ہر قسم کے کھانے پینے سے رک جاتے ہیں‘ اپنی نظروں کی حفاظت کرتے ہیں‘ لغو اور بیہودہ گفتگو سے سماعت کو آلودہ نہیں ہونے دیتے۔ نیکیوں کو تلاش کرتے ہیں اور جہاں کوئی حاجت مند دکھائی دے ،اس کی مدد کرنے کو دوڑتے ہیں۔ آزادی سے پہلے برصغیر کے مسلمان کئی حوالوں سے آزاد تھے لیکن وہ اسلامی اصولوں کے مطابق تشکیل دیے گئے، نظام کے آرزو مند تھے۔ وہ چاہتے تھے کہ ایسا اسلامی سماج ترتیب دیا جا سکے جہاں مسلم اقدار پنپ سکیں۔ رمضان المبارک کی آمد پر رسول کریم نے اظہار مسرت فرمایا کرتے‘ نفلی عبادات کو بڑھا دیتے‘ ضرورت مندوں کی پہلے سے زیادہ مدد کی کوشش فرماتے۔ رسول کریم کی تعلیمات اور سنت مطہرہ کو پیش نظر رکھ کر جب ہم جائزہ لیتے ہیں کہ ہر سال رمضان المبارک کے آغاز پر پاکستان میں اشیائے ضروریہ کے نرخوں میں مصنوعی اضافہ کر دیا جاتا ہے تو اس بات پر شرم محسوس ہوتی ہے کہ یہ ملک اللہ اور اس کے پیارے رسول ﷺکے نام پر حاصل کیا گیا‘ اس آزادی کے لئے قربانیاں دی گئیں اور آج ہماری آرزوئیں چند گراں فروشوں اور ذخیرہ اندوزی نے یرغمال بنا لی ہیں۔ تازہ رپورٹ بتاتی ہے کہ رمضان المبارک کی آمد کے ساتھ ہی پورے ملک میں مہنگائی کی شرح 7فیصد بڑھ گئی ہے۔ حکومتی ادارے کورونا وبا سے نمٹنے میں مصروف ہیں۔ ان کی مصروفیت نے ناجائز منافع خوروں کو موقع دیا ہے کہ وہ اشیاءکے نرخوں میں مرضی سے اضافہ کر لیں۔ ادارہ شماریات کے جاری اعداد و شمار بتا رہے ہیں کہ آلو کے نرخوں میں 24.75فیصد‘ پیاز 9.39فیصد‘ چکن4.68فیصد‘ لہسن2.65فیصد‘ چاول1.15فیصد‘ اور دودھ 1.33فیصد مہنگا کر دیا گیا ہے۔ دال‘ چینی اور ٹماٹر کی قیمتوں کا بھی یہی حال ہے۔ اس ساری صورت حال کا افسوسناک پہلو یہ ہے کہ تاجر تنظیمیں کورونا کے انسداد کی خاطر حکومت کے ترتیب دیے حفاظتی اقدامات اور لاک ڈاﺅن کی خلاف ورزی کی دھمکی دے رہی ہیں۔ تاجر نمائندے سمجھتے ہیں کہ حکومت کے اقدامات ان کی مالی مشکلات میں اضافہ کا باعث بن رہے ہیں لیکن عوام کو ہر سال رمضان المبارک میں تاجروں کی ناجائز منافع خوری سے جو شکایت اور نقصان ہوتا ہے کوئی اس کا ازالہ کرنے کو تیار نہیں۔سماج کی ہئیت سازی کا عمل صرف مخصوص گروہ یا لوگ نہیں کرتے۔ رویے اور اجتماعی فکر وہ بنیادیں فراہم کرتی ہے جن سے کسی سماج کو مہذب یا غیر مہذب ہونے کی سند ملتی ہے۔ پاکستان میں ایسے قوانین نافذ ہیں جو ناجائز منافع خوری اور گراں فروشی کی ممانعت کرتے ہیں۔ گزشتہ ہفتے صدر مملکت نے ذخیرہ اندوزی کے سدباب کے لئے ایک تازہ آرڈیننس منظور فرمایا ہے۔ المیہ یہ ہے کہ پاکستان کانظام کچھ طبقات کی قانون شکنی کو روکنے میں کامیاب نہیں ہو سکا۔ شاید ہمارا اجتماعی مزاج قانون کی پابندی کو قبول نہیں کرتا۔ یہی وجہ ہے کہ ملکی قانون کو کھلے عام چیلنج کیا جا رہا ہے۔ سب سے زیادہ تشویشناک بات یہ ہے کہ ہم جس دین کے پیرو کار ہیں اس کے مبارک احکامات سے روگردانی بھی ہمیں شرمسار نہیں کرتی۔ کورونا کی وبا نے دنیا کا محاصرہ کر رکھا ہے۔ یقینا اجتماعی عبادات کا ماحول اس سے متاثر ہوا ہے۔ سعودی عرب کے فرمانروا شاہ سلمان نے اس بات پر دکھ کا اظہار کیا ہے کہ وبا کے باعث اس بار رمضان المبارک میں اجتماعی عبادات کے پہلے سے مناظر دکھائی نہیں دے سکیں گے۔ پاکستانی حکومت نے علمائے کرام کی مشاورت سے 20نکاتی منصوبہ پورے ملک میں نافذ کر دیاہے۔ لوگوں کو مساجد میں جانے اور وہاں عبادت کے دوران ایک دوسرے سے فاصلہ برقرار رکھنے کا بتایا جا رہا ہے‘ کورونا انسان کے لئے مہلک ثابت ہوا ہے۔ اس وائرس نے امیر غریب سب کو متاثر کیا ہے۔ وہ طبقات جو دیہاڑی دار ہیں‘ جو کئی روز تک کام کئے بنا گھر کے روز مرہ اخراجات چلانے کی سکت نہیں رکھتے اور جو ریاست و صاحب استطاعت افراد کی طرف مدد کے لئے دیکھ رہے ہیں انہیں اس مشکل وقت میں اکیلا نہیں چھوڑا جا سکتا۔ پاکستان میں ایسے افراد کی کمی نہیں جو اپنے ضرورت مند بھائیوں کے لئے آگے بڑھ کر کارخیر انجام دیتے ہیں۔ ان افراد کے فراہم کردہ عطیات چند ہی روز میں ڈیڑھ ارب روپے کی شکل میں وزیر اعظم کورونا ریلیف فنڈ میں جمع ہو چکے ہیں۔ رمضان المبارک کی آمد نے ہمارے لئے نیکیوں کی تلاش کا کام آسان کر دیا ہے۔ کورونا نے جن افراد کے روزگار کو متاثر کیا ہے اس مبارک ماہ میں ان کی ضروریات کا خیال رکھ کر ہم پاکستانی سماج کو اس کی اصل بنیادوں پر استوار کرنے میں مدد دے سکتے ہیں۔ قوم آزمائش کے وقت اپنی خوبیاں اور کمزوریاں ظاہر کرتی ہے۔ کورونا سے متاثرہ ماحول کو محفوظ بنانے، مستحقین کی خبر گیری اور قانون کی خلاف ورزی کرنے والوں کے خلاف سماجی ردعمل ہمیں مضبوط قوم بنا سکتا ہے۔
٭٭٭

LEAVE A REPLY

Please enter your comment!
Please enter your name here