کرونا اور امریکی سیاست!!!

0
208
جاوید رانا

 

جاوید رانا، بیوروچیفشکاگو

دسمبر 2019ءسے مئی 2020ءپانچ مہینے ہو گئے، ساری دنیا پر ایک آسیب کا سایہ ہے۔ اس کو کرونا دوسرے لفظوں میں Covid-19 کے نام سے کہیں وباءکہا جا رہا ہے، کہیں اعمال کی سزا، کہیں تنبیہ تو کہیں سازش کہا جا رہا ہے۔ بہر حال یہ جو کچھ بھی ہے اس نے دنیا کے رنگ ڈھنگ ہی بدل دیئے ہیں۔ اس کے باعث دنیا بھر میں لاکھوں ہلاکتیں ہو چکی ہیں۔ متاثرین کی تعداد ملین سے تجاوز کر گئی ہے، انسانوں کے ضیاع کےساتھ، اس کے منفی بلکہ بدترین اثرات ملکوں اور خطوں کی معیشت پر بھی ہوئے ہیں بلکہ اس پر عالمی سیاست میں بھی رد و بدل اور برتری کے حوالے سے نت نئے مو¿قف سامنے آرہے ہیں۔ نجوم اور سیاروں و برجوں کے ماہرین عالمی طور پر بڑی تباہیوں اور تبدیلیوں کی پیشگوئیاں کرتے نظر آتے ہیں۔ یہاں تک کہا جا رہا ہے کہ سوائن فلو کے بعد جس میں 5 کروڑ افراد جان سب گئے تھے یہ سب سے بڑی اور بد ترین وباءہے جس میں بے انتہاءجانی نقصان کا احتمال ہے اب تک کی صورتحال میں اس وباءسے سب سے زیادہ متاثر ہونےوالے ممالک میں امریکہ سر فہرست نظر آرہا ہے۔ اس کےساتھ جن ممالک میں سب سے زیادہ اموات ہوئی ہیں وہ یورپ کے ممالک ہیں۔ اٹلی، اسپین، جرمنی، برطانیہ، فرانس میں تو اس وقت اس وائرس کی تباہ کاریوں میں کسی حد تک کمی آئی ہے لیکن امریکہ میں اس کی شدت کم ہونے میں نہیں آرہی ہے۔ اس حوالے سے جو اعداد و شمار سامنے آرہے ہیں قارئین یقیناً اس سے بخوبی آگاہ ہیں۔
ہمارا خیال ہے کہ امریکہ میں Covid-19 کی تیزی نے امریکہ کو دنیا بھر میں قابل رحم (Pity) ملک کی ہیئت دیدی ہے۔ گزشتہ چھ سات دہائیوں سے امریکہ کو ایک امتیازی، با اختیار اور سُپر پاور کی حیثیت حاصل ہے۔ افغان وار میں سوویت یونین کی شکست و ریخت کے بعد اس کی حیثیت بلا شرکت غیرے دنیا کی واحد سپر پاورکی ہے۔ دنیا کے ہر سیاسی، معاشی، دفاعی، خارجی اور معاشرتی معاملے میں امریکہ کے اثر و رسوخ واضح نظر آتے ہےں۔ گویا امریکہ ہاتھی کا پاﺅں ہے جو ہر جگہ کسی حوالے سے نظر آتا ہے۔ نتیجتاً دنیا میں اس سے محبت کا جذبہ نظر آتا ہے یا عزت کا، اسی طرح کہیں نفرت کے جذبات ملتے ہیں تو کہیں خوف کے۔ ہر ایشو، ہر معاملہ خواہ ملکوں کے حوالے سے ہو یا عالمی سطح کا ہو امریکہ کی مرضی و مختاری سے بندھا نظر آتا ہے لیکن موجودہ صورتحال میں اس کی حیثیت ایک قابل رحم ملک کی سی نظر آ رہی ہے کہ دنیا کا مضبوط ترین ملک، با اثر ذرائع، بہترین نظام زندگی، معیشت و صحت رکھنے والا یہ ملک کرونا کی تباہیوں سے سب سے زیادہ متاثر ہوا ہے۔ آج اس ملک کا نظام زندگی مکمل طورپر لاک ڈاﺅن میں ہے۔ ہم یہ نہیں کہہ سکتے کہ دنیا خصوصاً یورپ کے ترقی یافتہ ممالک میں ایسا نہیں ہوا۔ یقیناً ان ممالک کو بدتر حالات و مشکلات کا سامنا کرنا پڑا لیکن ایک امریکی شہری اور میڈیا سے تعلق ہونے کے ناطے امریکہ میں اس وائرس کی آگاہی اور پھیلاﺅ پر بر وقت اقدامات نہ ہونے اور صدر ٹرمپ کے اس معاملے کو سنجیدہ نہ لینے کے روئیے پر ہمارے ذہن میں کئی سوالات اُبھرتے ہیں بلکہ شبہات قوی ہوتے ہیں کہ متعلقہ اداروں کی نشاندہی کے باوجود تاخیری فیصلے اور حربے کیوں اپنائے گئے۔ یقیناً 2016ءمیں ڈونلڈ ٹرمپ کے صدر منتخب ہونے کے وقت بہت سے لوگوں نے اس کے حق میں ووٹ نہیں دیئے ہونگے، عمومی انتخابات میں بھی بیشتر ریاستوں میں بلا شبہ مخالف گورنرز اور نمائندوں نے کامیابی حاصل کی لیکن اس وباءکے وقت پر صدر نے اپنی ذمہ داری صحیح طور سے ادا کی؟
کرونا کے پھیلاﺅ اور اثرات سے سب سے زیادہ متاثر ہونےوالی چار ریاستوں کے گورنرز اور شہری نمائندے ڈیمو کریٹ ہیں۔ قدرتی آفات کیلئے یہ ہر گز نہیں کہا جا سکتا کہ وہ کسی خاص علاقے، کمیونٹی کو نشانہ بناتی ہیں لیکن ان آفات سے بروقت نپٹنے، صحیح اقدامات کرنے اور وسائل کو صحیح طور پر بروئے کار لانے سے شدت میں کمی لائی جا سکتی ہے۔ تدارک کیلئے اقدامات سے تباہی کو گھٹایا جا سکتا ہے۔ Covid-19 کی متعلقہ شعبوں کی جانب سے آگاہی دیئے جانے پر صدر نے جس رویہ کا اظہار کیا وہ کسی بھی طور سے عوام و ملک کے مفاد میں نہیں آتے تھے۔ تاخیری حربے، وباءکو چینی وائرس کا نام دینے اور جن ریاستوں میں احتیاطی پابندیاں لگائی جا رہی تھیں وہاں لوگوں کو پابندیوں کےخلاف اسٹریٹس و تفریحی مقامات پر جمع ہونے کیلئے اُکسانا، ڈیمو کریٹس کے نقطہ¿ نظر سے اختلاف حتیٰ کہ اسپیکر پلوسی کیلئے نازیبا لقب کا استعمال، متاثرہ ریاستوں کے گورنرز سے اپنے اختیارات کا دعویٰ کرتے ہوئے عدم تعاون کا رویہ اپنانا چند مثالیں ہیں۔ نتیجہ یہ ہے کہ اس وقت امریکہ سب سے زیادہ متاثر ملک اور نیویارک ہلاکتوں کا ایپی سنٹر ہے۔ ہم یہ تو نہیں کہہ سکتے کہ صدر کا یہ رویہ محض کم علمی کی وجہ سے نہیں بلکہ ایک سوچی سمجھی گڑھی سازش ہے کہ مخالفین کو نیچا دکھایا جا سکے لیکن جارجیا اور فلوریڈا کے ریپبلکن گورنرز کے علاوہ تقریباً 15 ریبپلکن گورنرز نے مارچ تک Stay At Home اور غیر ضروری کاروباری سرگرمیوں کو بند کرنے کے احکامات جاری نہیں کئے تھے تو کیا یہ آفت میں سیاست کی سازش نہیں تھی کہ انسانی جانوں کی قیمت پر اپنی فوقیت اور مخالفین کی ہزیمت کا کھیل کھیلا جائے۔ ہمیں اس کا یقین ہے کہ یہ صرف ٹرمپ کی اختراع نہیں ہو سکتی بلکہ یہ اس ذہن کی سوچ ہے جو اپنے علاوہ کسی کو امریکہ کا مقتدر نہیں دیکھنا چاہتا اور جس نے پاپولر ووٹ کے توسط سے ٹرمپ کو صدر بنوایا تھا۔
ہمارا تجزیہ یہی ہے کہ یہ سب کچھ محض ٹرمپ کا ذہن ہی نہیں بلکہ اس اشرافیہ کی سوچ ہے جو کورونا وائرس کے باعث امریکی تباہ کاری کی آڑ میں امریکی عوام کے ذہنوں میں یہ بات بٹھانا چاہتی ہے کہ ریپبلکنز نے اہم کردار ادا کیا ہے جبکہ دوسری جانب وہ تمام تر حکومتی و انتظامی کنٹرول پر حاوی ہونے کی خواہشمند ہے۔ ٹرمپ کے جملے “Total Authority” اور I Dont Take Responibility At all اس حقیقت کو اُجاگر کرتے ہیں لیکن اس کا متضاد اثر اس طبقہ کی سوچ بن رہی ہے کہ ہمیں آزاد ماحول، معاشرہ اور معیشت چاہیے ہے ہمیں تحفظ کےلئے اسلحہ اور باربر کی دکان پر ہیئر کٹ کی آزادی چاہیے۔ ان دو سوچوں کے درمیان اختلاف کی راہ اور کورونا کی بڑھتی ہوئی تباہ کاریاں یقیناً دنیا کی اس واحد سُپر پاور کو نہ صرف اندرونی طور پر اس کی معاشرتی، سیاسی، معاشی ساکھ کو متاثر کرنے کا موجب ہو سکتی ہےں بلکہ بین الاقوامی کینوس پر بھی اس کی برتری پر اثر انداز ہو سکتی ہے ویسے بھی بین الاقوامی مبصرین اس امر کا اظہار کر رہے ہیں کہ کرونا کے اثرات کے نتیجے میں عالمی برتری کا توازن تبدیل ہونے جا رہا ہے۔ یہ خیال ممکن ہو سکتا ہے امریکہ اور چین کے درمیان کرونا کو لے کر تنازع کی صورتحال، چین کی معاشی برتری کی رفتارلیکن فرانس اور تیونس کی سلامتی کونسل میں کورونا کے باعث دنیا میں جاری جنگوں اور خونریزیوں کو روکنے کی قرارداد پر امریکہ، چین، روس اور برطانیہ کی عدم توجہی اور پانچ مستقل اراکین میں سے 4 کی توثیق نہ ہونے کے باعث قرارداد کاٹیبل نہ ہونا اس طرف نشاندہی ہے۔ واضح رہے کہ اقوام متحدہ کے سیکرٹری جنرل انتونیوگوتریس اور عالمی ادارہ صحت بھی اس حوالے سے اپیل کر چکے ہیں مگر ان ممالک کے کان پر جوں بھی نہیں رینگی خصوصاً امریکہ جو عراق، ایران، شام، فلسطین سے محاذ آرائی میں بلاواسطہ یا بالواسطہ ملوث ہے۔ تیل کی چوہدراہٹ سے محرومی، امریکی معیشت میں تنزلی اور ڈالر کی جگہ دیگر ایشیائی کرنسیوں کی خبریں بھی کچھ نہ کچھ حقیقت رکھتی ہیں۔
٭٭٭

LEAVE A REPLY

Please enter your comment!
Please enter your name here