سربراہی کا فقدان….شعلوں کو ہوا دینا!!!

0
234
جاوید رانا

جاوید رانا، بیوروچیفشکاگو

سال 2020ءکا آغاز ہوا تو ستارہ شناسوں، نجومیوں اور مستقبل کی پیشگوئیوں سے متعلق لوگوں نے اسے دنیا بھر میں مصائب، لڑائیوں اور عالمی منظر نامے میں تبدیلیوں اور اتھل پتھل کا سال ہونے کی پیش بینی کی تھی، اسی حوالے سے عالمی قیادت میں تبدیلیوں اور محاذ آرائی کی بھی نشاندہی کی گئی تھی۔ سال کے آغاز سے قبل ہی متعدد واقعات ایسے ہونے شروع ہو گئے تھے جو متذکرہ بالا پیشگوئیوں کی تصدیق کی جانب اشارہ کر رہے تھے ہم اپنے گزشتہ کالموں میں ان واقعات کے حوالے سے اپنے خیالات کا اظہار بھی کرتے رہے ہیں۔ بھارت کا گزشتہ سال اگست میں مقبوضہ کشمیر و لداخ کی آزادی ختم کر کے انہیں اپنی یونین قرار دینے، شہریت کے قانون سے اقلیتوں خصوصاً مسلم اقلیت کو حقوق سے محروم کرنے کے باعث جنوبی ایشیائی خطے میں بے چینی کے منظر نامے سے شروع ہوئی صورتحال نومبر، دسمبر میں چین میں کرونا کی وباءکے آغاز اور دنیا بھر میں اس کے جان لیوا پھیلاﺅ سے امریکہ سمیت کوئی ملک بھی نہ بچ سکا ہے۔ ہر براعظم اس وباءسے دوچار ہوا، لاکھوں لوگ اس وباءسے ہلاک ہو چکے ہیں۔ امریکہ جیسا ترقی یافتہ و سہولتوں سے مزین ملک اس سے سب سے زیادہ متاثر ہوا۔ دنیا بھر کی معیشتیں اس سے متاثر ہوئیں، کروڑوں افراد بے روزگار ہوئے۔ صرف امریکہ میں بیروزگاروں اور وباءسے نبرد آزما ہونے کیلئے کھربوں ڈالرز کا بوجھ پڑا۔ مبصرین کے مطابق اس وباءسے امریکی معیشت اور حالات کی بنیادی ذمہ داری امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کی غیر دانشمندانہ سوچ اور تاخیری فیصلہ سازی کے باعث ہوئی۔ تجزیہ کاروں کے مطابق اگر صدر ٹرمپ بروقت اقدامات و فیصلہ کر لیتے تو اموات کی تعداد ایک لاکھ سے تجاوز نہ کرتیں مگر ٹرمپ کی ضدی طبعیت اور میں نہ مانوں کی فطرت نے امریکہ کی عالمی معیشت، قومی شناخت اور انسانی حقوق کے حامل ملک کی شناخت کو مجروح کر کے رکھ دیا ہے۔
ٹرمپ کے اعلانیہ و غیر اعلانیہ اقدامات اور سوچ، رنگ و نسل کی بنیاد پر معاشرتی تفریق نیز جا بے جا اپنی سوچ کا اظہار امریکہ کی بین المعاشرتی خوبصورتی کو ختم کر رہی ہے۔ رنگ و نسل کی بنیاد پر سفید چمڑی میں خود کو برتر سمجھنا اور دیگر رنگ و نسل خصوصاً سیاہ فام افراد کو حقیر قرار دینا، نہ صرف ملک کی یکجہتی کو تار تار کر رہا ہے بلکہ ملک کے اندر اور بیرون ملک بھی نفرت کو ہوا دے رہا ہے۔ گزشتہ بدھ کو منی اپولس میں سیاہ فام جارج فلائڈ کو سفید فام پولیس افسر ڈیرک شاون کے گردن پر گھٹنے کے مسلسل دباﺅ سے مارے جانے کے واقعے کو اسی سوچ کا شاخسانہ قرار دے کر گزشتہ ایک ہفتہ سے بالخصوص گزشتہ جمعہ کی شب سے امریکہ احتجاج، افتراق اور ہنگامہ آرائی و لوٹ مار کی شدید لپیٹ میں ہے۔ اس وقت بھی جب ہم یہ سطور لکھ رہے ہیں امریکہ کے 154 شہر اس ابتر صورتحال سے گزر رہے ہیں۔ قارئین یقیناً اس تمام تر سچوئیشن سے میڈیا اور سوشل میڈیا کے توسط سے آگاہی حاصل کر رہے ہونگے۔ سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ انسانی حقوق کے علمبردار شخصی آزادی کے بلا امتیاز نقیب اس ملک میں ایک شہر میں چند آفیسرز کے ایک نہتے شخص کو غیر انسانی و سفاکانہ قتل کئے جانے کے واقعے پر سارے ملک میں وحشت، احتجاج، لُوٹ مار اور کرفیو یا ایمرجنسی کی صورت کیوں پیدا ہوئی۔ اس کے محرکات محض ایک سیاہ فام امریکی کا قتل کیا جانا ہی تھا یا اس کے پیچھے کچھ اور محرکات بھی ہیں۔
جارج فلائیڈ کی ہلاکت پر احتجاج منی اپولس میں پانچ روز سے جاری تھا۔ دیگر ریاستوں میں بھی احتجاج کا سلسلہ جاری تھا لیکن اس دہشتگردی، مارپیٹ یا لوٹ مار کا عنصر شامل نہ تھا۔ متعلقہ پولیس افسر کو برطرف کرنے کے علاوہ اس کےخلاف قتل کا مقدمہ درج کر کے گرفتار بھی کیا جا چکا تھا۔ منیسوٹا کے گورنر اور منی اپولس کے میئر حالات کو نارمل کرنے میں مصروف تھے لیکن دوسری جانب ضدی فطرت ٹرمپ نے حسب عادت دھمکی آمیز، نفرت کی زبان سے بھوسے میں چنگاری لگا دی۔ یوہوٹ، آئی ول شُوٹ، کے جملے افریقن امریکنز اور مخالف ریاستی گورنرز اور دیگر ذمہ د اروں و عہدیداروں کیخلاف زہریلی زبان اور دھمکیوں کا نتیجہ یہ ہوا کہ متعدد شہر بشمول شکاگو اُجڑ کر رہ گئے۔ کاروبار جو کرونا کی وجہ سے پہلے ہی غیر فعال تھے۔ مظاہرین کے رد عمل، لُوٹ مار توڑ پھوڑ اور شورش کے باعث تباہ ہو گئے۔ معاشی سرگرمیاں رُک گئیں اور اربوں ڈالرز کا نقصان سامنے آیا۔ صرف شکاگو میں ہی بلوائیوں کی لُوٹ مار اور توڑ پھوڑ کے نتیجے میں محض ایک دن میں 1.20 ارب ڈالرز کے نقصانات کا تخمینہ لگایا گیا جبکہ اتوار کے روز لُوٹ مار کا یہ سلسلہ ریاست کے دوسرے شہروں تک پھیل گیا، بڑے چھوٹے اسٹورز، مالز،، اسلحہ کے آﺅٹ لیٹس، جیولرز اور موبائل اسٹورز سے لوگ بہت کچھ لُوٹ کر لے گئے۔ یہ سلسلہ محض شکاگو یا منی اپولس تک ہی محدود نہیں سارے امریکہ میں پھیل چکا ہے۔ 40 شہروں میں کرفیو نافذ ہے۔ واشنگٹن ڈی سی اور 23 ریاستوں میں نیشنل گارڈز کو طلب کر لیا گیا ہے جو پولیس کو سپورٹ دینگے۔
ایک سیاہ فام کی ہلاکت سے نسل پرستی و تعصب کےخلاف ہونےوالا احتجاج آخر نفرت انگیزی کی لہر کیوں بن گیا جس نے شر انگیز اور لُوٹ مار کرنےوالے عناصر کو تباہی و بربادی کا موقع دیا۔ امریکہ کی بہترین تربیت یافتہ پولیس بھی کچھ نہ کر سکی اور محض تماشائی بنی رہی۔ بلکہ د رجنوں اہلکاروں کی مضروبیت بھی ہوئی۔ حقیقت یہ ہے کہ برسوں سے جاری نسل پرستی اور سفید فام کی برتری کے اظہار کے معاشرتی تعصب کےخلاف دیگر نسلی قومیتوں خصوصاً امریکی کمیونٹی کے مخفی جذبات کو ہوا ٹرمپ کے دھمکی آمیز اور غیر دانشمندانہ بیانات و اقدامات نے دی ہے۔ سفید چمڑی کے احساس برتری و اختیار حکومت اور افریقی امریکی و دیگر کو حقیر سمجھنے والوں کی معاونت سے صدر منتخب ہونےوالا ٹرمپ درحقیقت سیاسی سوجھ بوجھ سے عاری شخص ہے جس میں نہ ہی سیاسی بصیرت ہے اور نہ ہی ڈپلومیٹک صلاحیت ہے۔ اندرون ملک کے حالات ہوں یا بین الاقوامی ایرینا کے معاملات ٹرمپ نے ہر محاذ پر امریکہ کی سبکی کرانے کے ہی اقدامات کئے ہیں۔ صدر بننے کے بعد بھی ٹرمپ خود کو سیلیبریٹی سمجھنے کے تاثر سے نہیں نکل سکا ہے اور سفید فام برتری و عالمی برتری کے ایجنڈے پر بھونڈے طریقہ سے عمل کر کے نہ صرف امریکی عوام و انتظامیہ کیلئے درد سر بن گیا ہے بلکہ عالمی منظر نامہ میں بھی اس کا طرز عمل امریکی مفاد کےخلاف نظر آتا ہے۔ دیکھنا یہ ہے کہ حالات کس رُخ پر جاتے ہیں اور نومبر میں ہونےوالے انتخابات کیا صورت اختیار کرتے ہیں۔ اقتدار میں فقدان شعلوں کو ہوا دے رہا ہے۔
٭٭٭

LEAVE A REPLY

Please enter your comment!
Please enter your name here