”لوٹ مچی ہے لوٹ“

0
182
حیدر علی
حیدر علی

حیدر علی

ایک جانب انسانیت کراہ رہی تھی ، کورونا وائرس اپنے عروج پر تھا، سیاستدان عوام سے امداد کی اپیل کر رہے تھے، تو دوسری جانب بدکردار اور بدقماش افراد اِس بہتی گنگا میں ہاتھ دھونے کے کسی بھی موقع کو ضائع ہونے نہیں دے رہے تھے، اُنہوں نے سٹیٹس اور وفاقی حکومت کے ملین آف ڈالرز کو منٹوں منٹ میں ہڑپ کر ڈالا، صدر ڈونلڈ ٹرمپ کا ٹوئٹ کہ اُنہیں وینٹیلیٹرز کی ابھی اور فوری ضرورت ہے۔ امریکا کی معروف کمپنیاں جن میں فورڈ اور جنرل موٹرز شامل تھے ،صدر نے اُنہیں حکم دیا کہ وہ فوری طور پر وینٹیلیٹرز بنانا شروع کردیں، اِسی اثناءنیویارک ا سٹیٹ کے گورنر کے آفس میں کسی نے ٹوئٹ کیا کہ وہ فوری طور پر آئی سی یو وینٹیلیٹرز فراہم کرسکتا ہے۔ ٹوئٹ کرنے والا شخص اسرائیلی نژاد امریکن یارن اورین پائنز (Yaron Oren-Pines) تھا، یارن اِس سے قبل اپنی زندگی میں شاید ہی کبھی طبی یا جراحی آلات کے خرید و فروخت کے کسی بھی شعبہ سے منسلک رہا تھا لیکن صرف تین دِن بعد ہی نیو یارک سٹیٹ نے یارن اورین پائنز کو $69ó1 ملین ڈالر کی رقم 1,450 وینٹیلیٹرز خریدنے کیلئے ادا کردی۔ایک وینٹیلیٹر کی قیمت $47,656 تھی جبکہ امریکا کی مشہور کمپنی فِلپ اِسی وینٹیلیٹر کو15 ہزار ڈالر فی کس کی قیمت پر فروخت کر رہی تھی تاہم نیویارک سٹیٹ کے ایک اعلی افسر نے انکشاف کیا کہ یارن کو یہ کنٹریکٹ براہ راست وہائٹ ہا¶س کے ٹاسک فورس کی سفارش پر دیا گیا تھا بعد ازاں وہائٹ ہا¶س کے ترجمان نے اِسے یکسر مسترد کردیا، وینٹی لیٹرز کی رقم $69ó1 ملین ڈالرز تو ادا کر دی گئی تھی لیکن ایک وینیٹیلیٹربھی ایک ماہ بعد تک نیویارک سٹیٹ کو وصول نہ ہوسکا، جب اخباری نمائندوں نے یارن اورین پائنز سے رابطہ کیا تو اُس نے صرف یہ جواب دیا کہ” نہ ہی وہ اور نہ ہی اُس کی کمپنی اِس ضمن میں کوئی تبصرہ کرے گی“ اسپتال کے حکام اُن وینٹیلیٹرز کا تا ہنوز انتظا ر کر رہے ہیں۔ مزید برآں اِس امر کا بھی انکشاف کیا گیا ہے کہ متنازع کمپنی کو کنٹریکٹ گورنر نے تمام قواعد و ضوابط کو بالائے طاق رکھ کر دیا تھا، اور جو صرف اُس ہنگامی دور کا ایک ٹِپ آف دی آئسبرگ ہے جس وسیع پیمانے پر متعدد کمپنیوں نے فراڈ کے ذریعہ ذاتی حفاظت کیلئے استعمال ہونے والے آلات کی قیمتوں میں بیش بہا اضافہ کرکے سرکاری اداروں کو لوٹا ہے اُس کی کوئی مثال نہیں ملتی ہے۔ امریکا کی 3M کمپنی جو سرجری کیلئے حفاظتی ماسک بناتی ہے ، اپنے اُس ماسک کی قیمت $1۔27رکھا ہوا ہے، لیکن کسی کمپنی نے اُسی ماسک کو کیلیفورنیا کے ڈیپارٹمنٹ آف ٹرانسپورٹیشن کو فی کس $12۔74 فروخت کرنے میںکسی شرم کا مظاہرہ نہیں کیا۔ مجبورا” 3M نے درجنوں کمپنیوں کے خلاف بلا جواز قیمتوں میں اضافہ، ناجائز منافع خوری اور اُسکی اشیاءکو بلا اجازت فروخت کرنے کا مقدمہ دائر کر دیا ہے۔ گذشتہ ہفتے ہی نیو جرسی کے پراسیکیوٹر ز نے گاڑی کے ایک ڈیلرز کو رنگے ہاتھوں اُس وقت گرفتار کیا جب اُس نے 3M کے برانڈ N95 کے 7 لاکھ ماسک کو 45 ملین ڈالرز میں نیویارک سٹی کو فروخت کرنے کی کوشش کر رہاتھا۔ مذکورہ شخص رونالڈ رومانو میکیڈونیا کا وزیر بھی رہ چکا ہے۔ پرانی گاڑی فروخت کرنے کے علاوہ رومانو کی ایک کمپنی روڈ آئلینڈ میں ہے، جسکا دعوی ہے کہ وہ میڈیکل فضلات سے روڈ آئلینڈ میں انرجی پیدا کرے گی۔ڈسٹرکٹ کورٹ مین ہٹن نے رومانو کے خلاف جو الزامات لگائے ہیں، اُن میں وائر فراڈ ، قیمتوں میں بلا جواز اضافے کرنا اور 3M کے حفاظتی آلات کو بغیر اجازت فروخت کرنا شامل ہے۔
علاوہ ازیں جارجیا کے ایک شخص کو خفیہ ایجنسی کے حکام نے اُس وقت گرفتار کیا جب اُس نے 125 ملین سانس لینے والے ماسک کو جسکا کوئی وجود ہی نہ تھا حکومت کو فروخت کرنے کی کوشش کی تھی، جنوبی کیلیفورنیا کے دو افراد اُس وقت گرفتار کئے گئے جب اُنہوں نے 3M کے نن ایگزسٹنٹ چہرے کے ماسک کو 4 ملین ڈالر میں فروخت کرنا چاہتے تھے۔ نیویارک میں ایف بی آئی کے ایجنٹ نے میڈیسن ایونیو کے ایک فارماسسٹ رچرڈ شیریپا کو بھی قیمتوں میں بلاجواز اضافے کے الزام میں گرفتار کیا ہے۔ اُس پر الزام ہے کہ اُس نے اپنی گاڑی کے ٹرنک میں رکھے ماسک کو 50 فیصد کے اضافی قیمت پر فروخت کر رہا تھا۔ اُس نے ایجنٹوں کو بتایا تھا کہ یہ سامان اِس وقت سونا ہیں ، سونا۔
قانون نافذ کرنے والے ادارے نے نیو یارک سے تعلق رکھنے والے 34 سالہ ہنری جِن کو بھی اپنے گرفت میں لے لیا ہے۔ مذکورہ شخص پر الزام ہے کہ اُس نے جعلی ٹیسٹ کِٹ فروخت کرکے سادہ لوح عوام سے رقمیں بٹور رہا تھا۔ وہ لوگوں کو دھوکا دہی کے ذریعہ فی کس ٹیسٹ کِٹ $200 ڈالر میں فروخت کر رہاتھا، اور اِس بات کی یقین دہانی کرارہا تھا کہ ٹیسٹ کے نتائج اُنہیں میل یا ای میل کے ذریعہ مِل جائینگے لیکن بدقسمتی سے ہفتوں گزر جانے کے باوجود بھی کسی فرد کو نتائج موصول نہیں ہوے اور لوگ قانون نافذ کرنے والے اداروں سے رابطہ کرنے پر مجبور ہوگئے۔ ملزم نے لوگوں کی ناکوں سے لعاب بھی حاصل کئے تھے اور اُن سے رجسٹرڈ میل کی رقمیں بھی وصول کیں تھیں۔ ملزم پر حکام نے میل فراڈ ، وائر فراڈکا مقدمہ درج کیا ہے۔اعلی حکام اِس بات کی بھی تحقیقات کر رہے ہیں کہ بے شمار کمپنیاں برساتی مینڈکوں کی طرح وجود میں آگئیں ہیںجو یہ جھانسہ دے کر لوگوں سے رقمیں وصول رہی ہیں کہ وہ اُنہیں صفر شرح سود پر فیڈرل ریزرو بینک سے قرض دلوا دینگی جبکہ سرکاری طور اِسکا کوئی وجود نہیں ہے۔

LEAVE A REPLY

Please enter your comment!
Please enter your name here