وزارت نیشنل فوڈ سکیورٹی نے ٹڈی دل کی تباہ کاریوں کے متعلق وزیر اعظم عمران خان کو رپورٹ پیش کی ہے۔ جس میں کہا گیا ہے کہ ٹڈی دل کے خلاف بروقت کارروائی نہ ہونے سے ملک کو 490ارب روپے سے 2ہزار 451ارب روپے تک نقصان پہنچنے کا خدشہ ہے۔ جنوری 2019ءمیں سعودی عرب اور ایران کے اندرونی علاقوں اور یمن کے جنوبی حصے میں ٹڈی دل کی نئی لہر پیدا ہوئی۔ موسم بہار کے دوران ان علاقوں سے ٹڈی دل نے پاکستان‘ بھارت کے سرحدی علاقے اور افریقہ کی جانب ہجرت کی۔ اگر اس وقت اس کے سدباب کے انتظامات کئے جاتے تو اسے مزید بڑھنے سے روکا جا سکتا تھا لیکن بدقسمتی سے حکومت نے اس وقت اس جانب توجہ ہی نہیں دی جس کے باعث اسے بڑھنے کا موقع ملا۔ ٹڈی دل نے 30برس کے بعد حملہ کیا ہے۔ اس سے نمٹنے کے تمام آلات خستہ حال ہو چکے ہیں اس بنا پر متعلقہ محکمہ اس کے خلاف موثر کارروائی نہیں کر سکا‘ حکومت اگر شروع میں ناکارہ آلات کو ہی ازسر نو تیار کر لیتی تو اتنی بڑی تباہی نہ ہوتی نیشنل فوڈ سکیورٹی کی رپورٹ میں واضح کہا گیا ہے کہ ملک میں ربیع اور خریف کی فصلوں کی کل مالیت 3268.7ارب روپے ہے۔ اگر فصلوں کو 15فیصد نقصان ہوتا ہے تو ملکی معیشت کو 490.3ارب روپے کا نقصان ہو گا۔ 25فیصد نقصان سے 1634.3ارب خسارے کااندیشہ ظاہر کیا ہے۔75فیصد نقصان سے 2451.5ارب روپے کے نقصان کا خدشہ ہے۔ اگر ہم حالیہ بجٹ کی بات کریں تو حکومت نے 3437 ارب روپے خسارے کا بجٹ پیش کیا ہے۔ٹڈی دل سے نقصان کا جو خدشہ ظاہر کیا جا رہا ہے اس تناظر میں تو ہماری معیشت ایک لمبے عرصے تک پاﺅں پر کھڑی نہیں ہو سکے گی۔ حکومت پاکستان نے 250240سکوائر کلو میٹر رقبے کا سروے کیا ہے جبکہ ابھی تک 5121مربع کلو میٹر رقبہ پر آپریشن کیا گیا ہے۔ حکومتی سروے اور سپرے کی رفتار کافی سست ہے۔ اگر اسی رفتار سے سروے کا سلسلہ جاری رہا تو پھر معیشت کو بڑے نقصان کا سامنا کرنا پڑے گا اور مستقبل میں ہمیں سبزیوں‘ چاولوں ‘ پھلوں اور جانوروں کی خوراک کی قلت جیسی مشکلات کا سامنا کرنا پڑ سکتا ہے۔ حکومت پاکستان کی ہی ایک رپورٹ کے مطابق رواں اور آئندہ ماہ ٹڈی دل کے مزید جھنڈ افریقہ اور ایران سے پاکستان میں داخل ہو سکتے ہیں جبکہ مون سون کا موسم اس کی افزائش کے لئے انتہائی اہم ہوتا ہے۔ ہمارے ہاں تو مون سون کا سلسلہ شروع ہونے والا ہے لیکن ہم نے اس کی افزائش کو روکنے کے لئے بھی کوئی اقدامات نہیں کئے۔ پاکستان میں جب ٹڈی دل کے انڈوں سے بچے نکلیں گے تو ان کی تعداد میں مزید اضافہ ہوگا۔ جو باعث تشویش ہے۔ نیشنل ڈیزاسٹر مینجمنٹ اتھارٹی کی رپورٹ کے مطابق ملک کے 154اضلاع میں سے 61اضلاع اس وقت ٹڈی دل کے نشانے پر ہیں جبکہ مزید اضلاع پر اس کے حملوں کا امکان ہے۔حکومت نے حالیہ بجٹ میں ٹڈی دل کے خاتمے کے لئے 10ارب روپے مختص کئے ہیں۔ مناسب ہو گااس رقم کو فی الفور استعمال میں لایا جائے۔ایریل ونگ کے لئے 6ایئر کرافٹ ایک ایئر ٹریکرایئر کرافٹ خریدنے سمیت 9نکاتی حتمی پلان پر فی الفور عملدرآمد شروع کیا جائے جبکہ فیبر لمون اور نیم کیمیکلز تیار کرنے کا عمل بھی تیز کر دیا جائے خدانخواستہ اگر اس میں کسی قسم کی سستی یا کوتاہی کی گئی تو پھر ناقابل تلافی نقصان کا سامنا کرنا پڑ سکتا ہے۔اب تک کے اقدامات سے یہ اندازہ لگانا مشکل نہ ہو گا کہ حکومت نے ٹڈی دل کے انسداد کے حوالے سے سنگین غفلت کا مظاہرہ کیا ہے جس کا ثبوت یہ ہے کہ پاکستان میں ٹڈی دل کے حملے کے کچھ ہی دنوں کے بعد برادر ملک ترکی نے ٹڈی دل کے خاتمے میں مدد کے لئے خصوصی طیارہ پاکستان کو فراہم کیا تھا ہونا تو یہ چاہیے تھا کہ ترکی کی مدد کے بعد حکومت اپنے تمام وسائل بروئے کار لانے کے ساتھ دیگر دوست ممالک سے بھی تعاون حاصل کرنے کی کوشش کرتی مگر بدقسمتی سے حکومتی اداروں کی تساہل پسندی اور غفلت سے مزید اقدامات تو دور کی بات ترکی کی طرف سے فراہم کئے گئے طیارے کو بھی بروقت استعمال میں نہیں لایا جا سکا۔ وزارت نیشنل فوڈ سکیورٹی کی رپورٹ میں جو خدمات ظاہر کیے گئے ہیں اس حوالے سے آنے والے دنوں میں ہمیں کورونا سے بڑھ کر ایک اور مصیبت کا سامنا کرنا پڑے گا۔ گو دونوں آفتیں اللہ کی طرف سے آئی ہیں حکومت کورونا کے پھیلاﺅ کا ذمہ دار عوام کوقرار دے رہی ہے کہ عوام نے ایس او پیز پر عملدرآمد نہیں کیا جس کے باعث اب مسائل کا سامنا کرنا پڑ رہا ہے۔ لیکن ٹڈی دل کے باعث ہونے والے نقصان کی ذمہ دار خود حکومت ہے۔ وسائل اختیارات اور افرادی قوت ہونے کے باوجود ٹڈی دل کو کنٹرول نہ کرنا محکمہ زراعت اور ہمارے حکومتی اداروں کی غفلت لاپرواہی اور سستی کا نتیجہ ہے۔ اس سلسلے میں حکومت پاکستان کو متحرک ہونا ہو گا۔ حکومتی مشینری اور وسائل کو بروے کار لا کر اس کا خاتمہ کیا جا سکتا ہے۔ اگر اب بھی ہم نے سستی دکھائی یا پھر روایتی انداز میں کام کیا تو پھر ہمیں بڑے نقصان کا سامنا کرنا پڑے گا۔
٭٭٭