ہم نے کچھ عرصہ قبل اپنے ایک کالم میں دنیا میں ہونے والے واقعات اور برتری کی جنگ میں بدلتی ہوئی صورتحال پر اظہار رائے میں اس امر کا اشارہ کیا تھا کہ بدلتی ہوئی دنیا میں براہ راست روایتی جنگ کے بجائے ملکوں اور قوموں کو پروپیگنڈہ کے ذریعے ففتھ جنریشن وار اور پراکسی وار کے توسط سے ہدف بنا کر اندر سے کمزور کرنے کی کوشش کی جاتی ہے اور ہمارا ازلی دشمن بھارت اس حوالے سے دیگر ریاستوں اور مملکتوں سے ساز باز کر کے اس قبیح حرکت میں کوئی موقعہ ہاتھ سے نہیں جانے دیتا۔ پاکستان میں طویل دہشتگردی میں تقریباً دو دہائیوں کے عرصے میں بھارتی حکومت اور اس کی ایجنسیوں کا کردار اس کی بہت واضح مثال ہے کہ جس میں ہمیں اپنے عسکری جوانوں اور عوام کے علاوہ معصوم بچوں اور خواتین کی شہادتوں کا نذرانہ دینا پڑا۔ افغانستان میں پاکستانی سرحد سے متصل علاقوں میں بارہ قونصل خانے قائم کر کے دہشتگردوں کی ٹریننگ اور ان کے ذریعے دہشتگردی کے اقدامات کےساتھ ”را“ اور NDS کے ایجنٹوں کو پاکستان میں رائے عامہ کو ریاست کےخلاف اُبھارنے کا عمل پراکسی وار کا ہی حصہ تھا۔ کلبھوشن یادو کی گرفتاری اور اس کے اعترافات اس حقیقت کی بڑی گواہی ہے۔ حالات و واقعات نے یہ بھی واضح کر دیا کہ اس میں دیگر اہم قوتوں خصوصاً مغربی طاقتوں کا بھی بہت اشتراک و کردار تھا۔ بعد کے حقائق اس امر کا ثبوت ہیں۔ آپ یقیناً سوچ رہے ہونگے کہ اس وقت اس روداد کو دہرانے کی ضرورت کیوں پڑ گئی۔ یہ بات یقیناً سب کے علم میں ہے کہ سال 2020ءکے آغاز سے خصوصاً کرونا کے اثرات کے تناظر اور عالمی سیاسی و معاشی حالات نیز برتری کی دوڑ میں اس وقت عالمی منظر نامہ دو بڑے گروپس میں بٹا ہو اہے ایک جانب امریکہ کے ہمراہ بھارت، آسٹریلیا، برطانیہ اسرائیل سمیت دیگر مغربی اور یو اے ای اور سعودی عرب جیسے ممالک ہیں تو دوسری جانب چین، روس، پاکستان، ترکی، ایران ملائیشیا اور شمالی کوریا جیسے ممالک کا اتحاد نظر آتا ہے۔ بات کو مختصر کرتے ہوئے بھارت کے موجودہ اندرونی حالات اور چین سے اس کی بدترین ذلت کو پیش نظر رکھتے ہوئے جائزہ لیں تو واضح نظر آرہا ہے کہ بھارت کے حلیف بھی چین کے مقابل بے بس نظر آرہے ہیں۔ موجودہ حالات میں امریکہ، برطانیہ و اسرائیل بھی بھارت کی مدد سے بظاہر عملی طور پر سامنے نہیں آسکتے ہیں۔ دوسری جانب وہ چین کے بڑھتے ہوئے رسوخ اور خصوصاً CPEC کے حوالے سے چین کی معاشی سبقت سے بھی ہراساں ہیں۔ پاکستان اس منصوبے میں چین کا پارٹنر بھی ہے اور اقتصادی راہداری کے حوالے سے پاکستان کی اہمیت بھی امریکہ سمیت سارے ممالک کو معلوم ہے۔ چین نے بھارت اور امریکہ کی شاہراہ قراقرم اور سیاچن تک راہداری کی سازش کو تہس نہس کر کے واضح کر دیا کہ چین اور پاکستان کو جنگی طریقوں سے دبایا نہیں جا سکتا۔ عراق، مصر، لیبیا، افغانستان کی طرح امریکہ یا بھارت پاکستان پر حملہ کر کے اپنے مقاصد حاصل نہیں کر سکتے۔ اس صورتحال میں پاکستان کے دشمنوں کے پاس واحد راستہ پاکستان کے اندر شورش و بے چینی کے حالات پیدا کرنے کا رہ جاتا ہے اور اس کیلئے ان کے پاس منفی پروپیگنڈے اور پراکسی وار کا ہی آپشن ہے جس سے پاکستان میں ریاست و عوام کے درمیان خلیج پیدا کر کے داخلی حالات کو ابتر کیا جا سکے۔
10 جولائی 2020ءکو بی بی سی اردو نے ایک خبر لگائی ہے ”لال مسجد جیسا آپریشن میں نے اپنی زندگی میں کبھی نہیں دیکھا“۔ قارئین اس کو یو ٹیوب پر دیکھ سکتے ہیں۔ تحریر نگار نے تیرہ سال قبل ہونےوالے اس واقعہ میں پاکستان کی ریاست خصوصاً افواج کیخلاف زہر افشانی کرتے ہوئے جامعہ حفصہ کی طالبات، مدرسہ کے جوانوں اور مسجد کے محصورین پر اقدامات و ہلاکتوں کو اس انداز میں تحریر کیا ہے کہ گویا یہ یکطرفہ فوجی بربریت کا واقعہ تھا۔ اسی پر بس نہیں کیا گیا۔ اسی شمارے میں ایک پاکستانی آصف فاروقی کا 4 جولائی 2007ءکا ایک آرٹیکل عبدالرشید سے مولانا تک، کے عنوان سے شائع کیا گیا۔ سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ تیرہ سال قبل ہونےوالے اس واقعہ کو اس وقت شائع کرنے کا مقصد کیا تھا اور اس کےساتھ ہی آصف فاروقی کا 2007ءکا آرٹیکل لگانے کے پس پردہ کیا مقاصد کار فرما ہیں۔ سیدھی سی بات ہے کہ اس کا محور یہی ہو سکتا ہے کہ اس گڑے مردے کو اُبھار کر پاکستانی عوام کے درمیان منافرت اور مذہبی اختلاف کو ہوا دی جائے۔ قارئین کو یاد ہوگا کہ لال مسجد کا جھگڑا دراصل بھارت اور اس کے حلیفوں کی دہشتگردی کے سلسلے کی خطرناک کڑی تھی اور اس کے کرتا دھرتا اپنے آقاﺅں کے منصوبے پر عمل کر رہے تھے یہ بھی یاد رہے کہ اس زمانے میں ہر ہفتہ 40,40 دھماکے ہوتے تھے اور سینکڑوں کی تعداد میں لوگ ہلاک اور زخمی ہو رہے تھے۔ غازی عبدالرشید نے مسجد میں سینکڑوں کی تعداد میں جنگجو اور بے شمار اسلحہ جمع کر رکھے ہوئے تھے۔ اسلام آباد کو اپنے زیر نگیں بنایا ہوا تھا۔ خواتین کو، مدرسہ کی خواتین گاڑی چلانے پر، بیوٹی پارلرز و دیگر کاموں سے ڈنڈوں کے زور پر روکتی تھیں،ز ود کوب کرتی تھیں۔ دارالحکومت کا نظام اتھل پتھل تھا۔ اس وقت کے صدر پرویز مشرف کو اس واقعہ کے حوالے سے کہنا پڑا تھا کہ نہ چاہتے ہوئے بھی ملک بچانے کی خاطر مجھے یہ اقدام اٹھانا پڑا۔ اس اقدام پر اس وقت بعض حلقوں خصوصاً مذہبی حلقوں کو تحفظات بھی رہے لیکن اے پی ایس کے واقعہ کے بعد تمام قوم ایک پلیٹ فارم و مقصد پر متحد ہوئی اور بھارت کی پراکسی وار یعنی دہشتگردی کو جڑ سے اُکھاڑ پھینکا گیا۔
ہم نے جیسا کہ اوپر تحریر کیا ہے کہ تیرہ سال پرانے اس مردے کو زندہ کرنے کا مقصد قوم کے اتحاد کو بکھیرنا ہے اور بی بی سی جو ہمیشہ ہمارے دشمنوں خصوصاً امریکہ و بھارت کے ایجنڈے پر کام کرتا ہے اسے ہمارے داخلی بحران کیلئے استعمال کیا گیا ہے۔ دشمنوں کو معلوم ہے کہ عملی جنگ پاکستان جیسے نظریاتی، نیوکلیائی صلاحیت کے حامل اور دنیا کی بہترین با صلاحیت، اہم پروفیشنل اور جذبہ¿ شہادت سے سرشار فوج کے ملک سے ان کے بس کی بات نہیں۔ قوم میں مذہب و عقائد کے اختلافی بیج بو کر اس ملک کو کمزور کیا جا سکتا ہے۔ اور اس کا راستہ ففتھ جنریشن وار، پراکسی وار سے ہی نکلتا ہے۔ ہم جانتے ہیں کہ ہماری عسکری قیادت و اراکین اور حکومت ایک پیج پر ہیں لیکن ہماری سیاسی اشرافیہ خصوصاً حزب اختلاف اور میڈیا کے بعض نا عاقبت اندیش دوستوں کو احساس ہے کہ ان کے ملکی سلامتی کیلئے کیا فرائض ہیں؟ جے آئی ٹی، مافیا و کار ٹیلز حکومت جانے آنے اور احتساب و انتخاب کی اہمیت سے زیادہ دشمنوں کی چالوں، منفی پروپیگنڈے اور پراکسی وار کا توڑ زیادہ اہم ہے اور ملک کی ضمانت بھی۔ اس وقت ساری قوم کے اتحاد کی ضرورت ہے کہ مستقبل قریب عالمی سیاسی و معاشی برتری کے بد ترین بحران کی خبر دے رہا ہے۔ ہمیں اپنا وطن بچانا ہے۔
٭٭٭