افراد کے ہاتھوں میں ہے اقوام کی تقدیر!!!

0
209
جاوید رانا

 

جاوید رانا، بیوروچیفشکاگو

ہم اپنے گزشتہ کالم ”غلاظت سے بھری قوم“ پر اپنے قارئین کی تحسین اور ہمت افزاءپیغامات و تبصروں پر ان کے شکر گذار ہیں، آپ جس طرح بالذات، فیس بک اور فون کالز کے ذریعے ہماری ہمت افزائی فرماتے ہیں، وہ ہمارے جذبہ¿ خدمت و سماجی و سیاسی تطہیر کے عزم کیلئے مہمیز کا کام کرتی ہے، تاہم ہمارے کچھ چاہنے والوں نے کالم کی سرخی پر سوال اُٹھاتے ہوئے، نکتہ پیش کیا ہے کہ بعض افراد کے منفی رویوں اور برائیوں پر پوری قوم کو ہدف نہیں بنایا جانا چاہیے، ہمارے ان دوستوں کا اعتراض سر آنکھوں پر، لیکن جیسا کہ ہم اپنے پچھلے کالم میں عرض کر چکے ہیں، پاکستان میں اس وقت کوئی شعبہ ایسا نہیں جہاں کسی نہ کسی صورت میں ماورائے اخلاق، مذہب و انسانیت عمل پذیری نہ ہو رہی ہو، اگر آپ صرف جنسی زیادتیوں، قتال اور لوٹ مار کے حوالے سے ہی جائزہ لیں تو اس منظر نامے میں ہر طبقے، علاقے اور کلاس ملوث نظر آرہی ہے۔ گجر پورہ (موٹر وے) کے واقعہ کے شور، میڈیا کے طوفان اور متعلقہ اداروں کی پُھرتیوں اور دعوﺅں کے باوجود آبرویزی و بدمعاشی کی وارداتیں تسلسل سے جاری ہیں،گزشتہ دنوں میں کوئی دن ایسا نہیں گزرا جب زیادتی کی کوئی خبر میڈیا سے نشر نہ ہوئی ہو۔ ملک بھر کے مختلف شہروں، قصبوں اور علاقوں میں کہیں شوہر کے سامنے بیوی اور بچوں کے سامنے ماں زیادتی کا نشانہ بنی، کہیں عزت لُوٹے جانے پر دادرسی نہ ہونے پر بیٹی نے زہر پی کر باپ کو پیغام دیا”ابا اب تُو سر اٹھا کر چلے گا تو کہیں قانون کے رکھوالے نے نوجوان لڑکی کو ہوس کا نشانہ بنا ڈالا۔ عابد ملہی (علی) کو گرفتار کرنا لاہور بلکہ پنجاب کی حکومت و تمام تر پولیس فورس کیلئے ہمالیہ سر کرنے کے مترادف ہو چکا ہے، کراچی سے اسلام آباد تک بشمول ملتان، سرگودھا، گوجرانوالہ، پاک پتن، اوچ شریف یہ وارداتیں مسلسل جاری و ساری ہیں۔ حکومتی بیانات، ناکامی پر شرمساری کی جگہ نئی توجیہات بتاتے رہے، سیاسی مخالفین اور میڈیا شور شرابا کرتے رہے اور شیطان کے چیلے اپنی درندگی دکھاتے رہے۔ ان حالات پر پچھلی قومیں نیست و نابود ہوئی ہیں۔ یہ تو اللہ کا کرم اور اپنے حبیبﷺ سے وعدہ ہے کہ ان کی امت پر ماضی کی قوموں کی طرح کوئی عذاب نہیں آئے گا ورنہ ہمارا طرز عمل بھی قوم لُوط سے کم نہیں ہے۔ طرز عمل کی بات کریں تو کسی بھی شعبہ کو دیکھ لیں، آپ کو بدی ہی بدی نظر آئے گی۔ قوموں اور معاشروں کی تطہیر اُسی وقت ممکن ہوتی ہے جب تطہیر کا عمل اوپر سے شروع ہو، پکڑ اور سزاﺅں کی عملداری اور خوف ہو اور قوم کے رہنما اور کار پرداز اس کی واضح مثال بنیں۔ وطن عزیز کی حالت جو کچھ ہے وہ آپ سب پر آشکار ہے۔ حکمران ہوں، سیاسی اشرافیہ ہو، مذہبی ٹھیکیدار ہوں یا دیگر شعبوں کے کرتا دھرتا سب اپنے مفادات، اغراض، باہمی چپقلش اور اپنی ناک سے آگے نہ دیکھنے کے شغل میں مصروف ہیں۔ اپنی اغراض و مفادات کے اس کھیل میں انہیں قوم و معاشرے کے سدھار سے کوئی دلچسپی نظر آتی ہے نہ وہ اس کیلئے کسی عملی تدبیر کو ترجیح دیتے ہیں۔ بیان کرنے کیلئے تو اس کی بے شمار مثالیں ہیں لیکن اختصار کرتے ہوئے سندھ کے پس ماندہ گاﺅں کے بچے، احمد کے اپنے مرغے کے گندہ پانی پینے سے مر جانے پر اس کی چیخ و پکار کی تازہ ترین مثال لے لیں جو میڈیا پر وائرل ہوئی، اس کی مدد کیلئے فوج آئی اور نہ صرف گاﺅں کو گندگی سے نجات دلائی بلکہ لوگوں کے آب و دانہ کا بھی بندوبست کیا، زرداری و بلاول کی سندھ حکومت کو یہ توفیق بھی نہ ہوئی کہ وہ اس بچے کے احتجاج پر کان دھرتے۔ وہ تو اس دُھن میں تھے کہ کسی طرح حکومت مخالف اے پی سی ہو جائے۔
بیس تاریخ کو ہونےوالی یہ اے پی سی دراصل ان سیاسی بیروزگاروں کا کھڑاگ تھا جو موجودہ حکومت کے آنے کے باعث نہ صرف اپنے طویل اقتدار و حکمرانی سے محروم ہو چکے ہیں بلکہ اپنے ماضی کے کرتوتوں اور بد عنوانیوں کی بناءپر احتساب اور سزاﺅں کے چُنگل میں جکڑے ہوئے ہیں اور انہیں اپنا مستقبل مخدوش نظر آرہا ہے۔ اس اے پی سی میں جو کچھ ہوا وہ کسی بھی طرح نہ ملک کے مفاد کیلئے تھا اور نہ ہی عوام کے بہتر حالات زندگی و سکون کیلئے تھا۔ اپوزیشن کی سب سے بڑی جماعت کے قائد اور عدالت سے مفرور قرار دیئے گئے میاں نوازشریف نے لندن سے جو خطاب کیا اس کے مندرجات، پاکستان کے دشمن ازلی بھارت کے میڈیا کی ہیڈ لائنز بنیں۔ میاں صاحب نے جس طرح ریاستی اداروں پر تنقید کی اور پاکستان کی سیاست میں اداروں کے عمل دخل پر سنگ زنی کی وہ شاید بھول گئے ہیں کہ وہ خود سیاست میں انہی اداروں کی پیداوار اور مرحوم ضیاءالحق کے لے پالک ہیں جسے ذوالفقار علی بھٹو اور پیپلزپارٹی کے سحر سے نکالنے کیلئے لایا گیا تھا ۔
میاں صاحب شاید یہ بھی بھول گئے ہیں کہ اپنے تین عشروں کا اقتدار کا سفر بھی انہی اداروں کے کندھوں پر بیٹھ کر کیا ہے۔ آج عمران خان کو سیکیورٹی رسک قرار دینے والے، انہی میاں صاحب نے مقتدرین کے اشارے پر بی بی شہید کےخلاف وہ غلیظ پراپیگنڈہ کیا تھا جو کسی بھی مہذب معاشرے میں ناقابل قبول ہی ہو سکتا ہے، آج اسی بھٹو کی پارٹی کےساتھ یہ اے پی سی کر رہے ہیں۔
حالات کی اس سے بڑی ستم ظریفی کیا ہو سکتی ہے کہ بھٹو اور بی بی کی مخالفت، زرداری کی حکومت کیخلاف کالا کوٹ پہن کر عدالت میں کھڑے ہونے والے میاں صاحب اور ان کی جماعت بھٹو کے نواسے اور بی بی و زرداری کے بیٹے کی اے پی سی میں محض اپنے مفاد کیلئے یکجائی کیلئے آمادہ کار ہیں! اس جُٹ میں فضل الرحمن ہیں جو برسوں کے بعد الیکشن ہار کر اقتدار کی راہدریوں سے باہر ہیں اور وہ ہر حربہ آزما رہے ہیں جس سے وہ ایک بار پھر اقتدار کا حصہ بن سکیں۔ باقی پارٹیوں کا کیا ذکر کیا جائے کہ ان کی حالت سیاست کی گاڑی میں محض اسپیئر وہیل کی ہے۔ یہ حزب اختلاف کی موجودہ حکومت کےخلاف پانچویں اے پی سی تھی اور لگتا ہے کہ اس کا انجام بھی بندوق کے اس کارتوس کی طرح ہی ہوگا جو چلتا تو ہے لیکن ٹھُس ہو جاتا ہے، بعض اینکرز کے مطابق سب کی حاضری ہوئی تھی اور یہ بتا دیا گیا تھا کہ پانچ سال پورے ہونے دو اے پی سی ہو گئی، دل کے پھپھولے پھوڑ لئے اب انتظار کریں مزید تین سال، ہاں اے پی سی جتنی چاہیں کر لیں، آخر یہ اے پی سی ہے کیا اور اس کا ماخذکیا ہے، بہت سے قارئین اس کا مطلب یقیناً آل پارٹیز کانفرنس ہی لیں گے لیکن کیا اس کانفرنس میں ملک کی تمام مخالف سیاسی پارٹیاں شریک تھیں؟ نہیں تو پھر یہ کثیر الجماعت کانفرنس ہونی چاہئے تھی۔ انکشاف یہ ہے کہ ن لیگ کے موجودہ دور میں صدر کئی برس قبل شکاگو آئے تو انہیں ایک تنظیم کا مخفف بہت پسند آیا اے پی سی ، جسے وہ اپنی کانفرنسز کیلئے بہت استعمال کرتے ہیں۔ شکاگو میں اے پی سی دراصل انجمن پاگلان شکاگو کا مخفف ہے اور یہ تنظیم پچھلے کئی برسوں سے ایکٹو ہے اور اس کے کرتا دھرتاﺅں میں مختلف شعبوں کی نامور شخصیات موجود ہیں۔ ہم اپنے اخلاقی و صحافتی تقاضے کی بناءپر ان کے نام تو افشاءنہیں کر سکتے تاہم یہ ایک حقیقت ہے بہر حال یہ تو ایک مثال معترضہ ہے، ہماری درخواست ہے کہ اے پی سی احتجاج اور سیاسی مخالفتوں سے بالا تر ہو کر قوم اور نظام کی بہتری اور عوام کی فلاح کیلئے سب مل کر عمل پیرا ہوں کہ بقول حکیم الامت!
افراد کے ہاتھوں میں ہے اقوام کی تقدیر
ہر فرد ہے ملت کے مقدر کا ستارہ
٭٭٭

LEAVE A REPLY

Please enter your comment!
Please enter your name here