ہم لڑتے کیوں ہیں؟

0
275
رعنا کوثر
رعنا کوثر

رعنا کوثر

آپ کو یہ ٹاپک بہت عجیب سا لگ رہا ہوگا۔آخر ہم لڑتے کیوں ہیں؟جی ہاں لڑائی ایک فطری چیز ہے دو بچے بھی لڑتے ہیں ایک دوسرے کا کھلونا چھیننے کے لیے یا ایک دوسرے کومحض چھیڑنے کے لیے طاقتور بچہ کمزور بچہ پر جب بھی حاوی ہوتا ہے۔کمزور بچہ رونے لگتا ہے اس کے چیخ چیخ کر رونے پر سب ہی متوجہ ہوجاتے ہیںاور طاقتور بچے کو کبھی ڈانٹ کا سامنا کرنا پڑتا ہے اور کبھی بڑوں کے تھپڑ کھانے پڑتے ہیں گو یا لڑائی جھگڑا کمزور کا چیخنا اور پٹائی کرنے والے کو لوگوں کی ڈانت کا سامنا کرنا ایک طرح سے قدرتی عمل ہے جو شروع سے انسان کو پیش آتا رہتا ہے اسی قدرتی عمل کی بدولت ہم اپنے غصے کا اظہار کرتے ہیں اور دوسروں کی سرزنش سے یہ بھی سمجھ جاتے ہیں کہ ہم کب کہاں اور کدھر کسی کمزور کو دبا رہے ہیں مگر آپ نے یہ بھی دیکھا ہوگا کے کبھی جب دو بچے لڑتے ہیں تو دونوں ہی چیخ چیخ کر روتے ہیں اور کسی کی سمجھ نہیں آتا کے طاقتور کون ہے اور کمزور کون ہے اور دونوں ہی کو پیار سے چمکارنے کی کوشش کرتے ہیںاور کبھی ایسا بھی ہوتا ہے کے دونوں بچے اتنا لڑتے ہیں کے دونوں ہی کی پٹائی ہو جاتی ہے۔یہ سارے قدرتی عمل ہیں جو اللہ تعالیٰ نے بچوں کے ذریعے ہمیں سمجھانے کی کوشش کی ہے۔قرآن میں ہمیشہ غوروفکر کی ترغیب دی گئی ہے۔کوئی چھوٹا سا واقعہ یا کوئی چھوٹی سی بات ہمیں غوروفکر کے ذریعے سمجھ میں آجاتی ہے۔اب ایسے دو بچوں کا لڑنا ہمیں یہ سمجھا دیتا ہے کے لڑنا جھگڑنا انسان کی اور بہت ساری خوبیوں اور خامیوں میں سے ایک ہے۔انسان بڑا ہو کر بھی بچپن کی اس فطری عادت سے پیچھا نہیں چھڑا پاتا اور لڑتا جھگڑتا رہتا ہے۔کچھ اتنا لڑتے ہیں کے لڑا کر مشہور ہو جاتے ہیں اور کچھ لڑنے جھگڑنے کی فطرت نہ ہونے کے باوجود جھگڑے ہیں۔اس لیے ملوث ہوجاتے ہیں کے دوسرا آدمی ایک طاقتور بچے کی طرح چھیڑ چھیڑ کر مار مار کر انہیں لڑنے پر مجبور کردیتا ہے۔ایسے میں وہ بھی مجبور ہوتے ہیں کے تھپڑ کا جواب تھپڑ سے دیں اب چھوٹے بچوں کی طرح رونے سے تو رہے ہاں جواب دینے کی کوشش ضرور کرتے ہیں۔مگر اب چونکہ خود بڑے ہوچکے ہیں اس لیے کوئی بڑا ایسا نہیں نظر آتا جو ان ۔
٭٭٭

LEAVE A REPLY

Please enter your comment!
Please enter your name here