ریپ صرف مرد ہی نہیں کرتے !!!!

0
123
حیدر علی
حیدر علی

 

حیدر علی

وزیراعظم عمران خان جب یہ کہتے ہیں کہ زیادتی کے مجرموں کو نامرد کرنے کا حامی ہوں تو بہت سارے پاکستانیوں کے چہرے پر مسکراہٹ بکھر جاتی ہے، لوگ سمجھتے ہیں کہ جیسے کوئی بچہ کان پکڑ کر یہ کہہ رہا ہو کہ ” میں نے توبہ کرلیا ہے ، اِسلئے مجھے اب سزا نہیں ملنی چاہیے“، چلو جی! تمہیں معاف کرتا ہوں، اور خود کو بھی، یہ بھی ایک نئی ریت چلی ہے کہ جیل سے ریپ کی سزا پاکر رہا ہونے والے مجرم بھی یہ کہہ رہے ہیں کہ زیادتی کے مجرموں کو سر عام پھانسی ملنی چاہیے جہاں تک زیادتی کے مجرموں کو نا مرد کرنے کا سوال ہے تو ایک امریکی ماہر جراحت نے کہا ہے کہ وہ جراحت کے ذریعے نامرد ہونے والے لوگوں پھر جراحت کے ذریعہ مرد بنا سکتا ہے۔ اُس نے کہا کہ یہ آپریشن اُسی طرح کا ہوتا ہے جس کے ذریعہ بعض خواتین کو مرد بنا دیا جاتا ہے اگر اِس طریقہ کار کا رواج عام ہوگیا تو شادی سے قبل لڑکیوں کو یہ تصدیق کر وانی پڑے گی کہ اُسکا ہونے والا شوہر جراحت کے ذریعے مرد تو نہیں بنا ہے۔ سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ پاکستان میں سیاستدانوں سے لے کر وزیراعظم تک صرف خواتین اور بچوں سے زیادتی کے خلاف بِل لانے کی باتیں کر رہے ہیںکیا مرد یا لڑکے حضرات خواتین سے زیادتی کا شکار نہیں ہوتے ہیں؟ امریکا میں تو اسکول کی سینکڑوں استانیاں لڑکوں کو اپنی ہوس کا نشانہ بنانے کے جرم میں گرفتار ہوتیں ہیں، دفاتر ، یونیورسیٹیوں اور کلبوں میں بھی ایسی خواتین کی کوئی کمی نہیں ہے بلکہ بعض خاتون تو یہاں گھر سے یہ ارادہ کرکے نکلتی ہیں کہ وہ آج کسی مرد کو زیادتی کا شکار بنائینگی، میرا ایک امریکی دوست چند سال قبل نیوجرسی میں اِسی طرح کی ایک خاتون کی زیادتی کا نشانہ بن گیا تھا۔ دراصل وہ اُس خاتون کے گھر اپنی ایک ایسی نئی نویلی گرل فرینڈ سے ملاقات کی غرض سے گیا تھا جس کی شکل بھی اُس نے نہیں دیکھی تھی، اُس خاتون نے اُسکا استقبال کیا اور بتایا کہ وہ لڑکی گھر میں موجود نہیں لیکن وہ ذرا سا انتظار کرلے جلد آجائیگی۔ خاتون نے اُسے ڈرنک کی پیشکش کی اور اُس نے قبول کر لیا، تھوڑے دیر بعد خاتون نے اُس کیلئے ایک اور ڈرنک لے آئی ، اور یہ باور کرایا کہ لڑکی اب بس آنے ہی والی ہے چند لمحہ بعد خاتون نے میرے دوست کی کمر کو اپنے بازو کی گرفت میں لے لیا، میرا دوست مزاحمت کرتے ہوے واپس جانے کی کوشش کی لیکن دروازہ اندر سے لاک تھاوہ خاتون قہقہہ مارتے ہوے اُس کی جانب بڑھی اور اُسے بوسہ لینے لگی، وہ اُسے یہ بھی کہتی رہی کہ اگر تم اُس لڑکی سے دوستی کرنا چاہتے ہو تو پہلے میں جو کہوں وہ تم کرو، دوسرے دِن میرے دوست کی طبعیت خراب ہوگئی اور اُسےHIV ٓ´کے چیک اپ کیلئے اپنے ڈاکٹر کے پاس جانا پڑا۔
اپنی پاکستانی قوم کو اِن ہی باتوں میں مزا آتا ہے اُنکے شہر یا گا¶ں میں نہ کرکٹ کا کھیل اور نہ ہی فٹ بال بس سیاسی رہنما¶ں کا بھاشن اُنکے ذوق تفریح کو تسکین پہنچا دیتا ہے، شہر کے اسٹیڈیم میں یا گا¶ں کے کسی چوراہے پر ریپ کے مجرم کو پھانسی دی جارہی ہو ، تو یہ تماشا بھی قابل دید ہوتا ہے، لوگوں کیلئے باعث عبرت کم ، حکمرانوں کیلئے غیظ و غصب کے دکھاوے کا اچھا سامان ہوتا ہے یہ ایک تنبیہہ ہوتی ہے کہ سنبھل جا¶ ورنہ ریپ کیس بنا کر لٹکا دیئے جا¶گے رہی بیرونی دنیا کی مدمت تو حکومت پاکستان کو نہ کبھی اِس کی پروا رہی ہے اور نہ ہی رہیگی یہی وجہ ہے کہ پاکستان کے خلاف درجنوں بین الا قوامی کمپنیوں کی جانب سے اربوں ڈالر کے ہرجانے کا فیصلہ ہوچکا ہے اور مضحکہ خیز امر یہ ہے کہ جب مذکورہ کمپنیاں حکومت پاکستان سے مطالبہ کرتیں ہیں کہ اُنہیں فلاں مقدمہ کے فیصلہ کے مطابق 3 بلین ڈالر دینے ہیں ، تو حکومت پاکستان کا جواب یہ ہوتا ہے کہ ہاں ہمیں پتا ہے۔ اِس حقیقت میں کوئی شک نہیں کہ پاکستان کو ریپ کے مجرموں کو سرعام پھانسی دینے یا سرجری کے ذریعے نامرد بنانے کے اقدام پر بین الاقوامی فورم میں شدید ردعمل کا سامنا کرنا پڑیگا بلکہ یہ بھی ممکن ہے کہ پاکستان کی رکنیت دولت مشترکہ سے معطل کردی جائے بے شمار بین الاقوامی اداروں کا دروازہ بند ہونا بھی خارج از امکان نہیں نامرد بنانے والے سرجنوں کا نام بھی بلیک لسٹ میں شامل کردیا جائیگا۔
امریکا میں گذشتہ سال یعنی 2019 ءمیں چار لاکھ پینتس ہزار ریپ کے کیس ظہور پذیر ہوے تھے، لیکن واویلا اتنا نہیں مچا تھا جتنا پاکستان میں صرف ایک ریپ کی واردات پر عمل میں آیا سزائیں بھی ریپ کی یہاں ہر سٹیٹ نے خود ہی وضع کی ہوئیں ہیں، وقافی حکومت کو ٹانگ اڑانے کی کوئی ضرورت پیش نہیں آتی بعض سٹییٹس ریپ کی سزا ئیں جرمانے پر ہی در گذر کرتیں ہیں اور دوسرے دو سال کے جیل سے لے کر مجرم کو تاحیات پابند سلاسل کرنے کو اپنا طرہ امتیاز بنایا ہوا ہے لہذا وہ نوجوان کسی لڑکی کے نو کہنے کو بھی ہاں سمجھتے ہیں ، اپنی چھوٹی سی غلطی پر سالوں سال جیل کی ہوا کھا تے ہیں۔
پاکستان میں بہت سارے ایسے قانون ہیں جو دنیا کے دوسرے ممالک کی نظر میں قابل اعتراض اور خود پاکستان کے دوسرے مذاہب اور فرقہ کیلئے سوالیہ نشان بنے ہوے ہیں ضرورت تو اِس بات کی ہے کہ ایسے قانون میں لچک پیدا کرکے دوسرے مذاہب اور فرقہ کے لوگوں کے تحفظات کو دور کیا جائے کیونکہ دوسرے فرقہ یا مذاہب کے لوگ بھی محب وطن پاکستانی ہیںاور بارہا اُنہوں نے اپنی حب الوطنی ثابت کرنے کیلئے اپنی جان کا نذرانہ بھی پیش کیا ہے۔آج پاکستان میں جس طرح مذہبی رواداری ، بھائی چارگی اور قومی یکجہتی کی فضا قائم ہے ، ہمیں ہر صورت میں اُسے قائم رکھنا چاہئے۔

LEAVE A REPLY

Please enter your comment!
Please enter your name here