عامر بیگ
ارشاد باری تعالی ہے کہ ”تمہیں ( مال ) کی حرص نے غافل کر دیا یہاں تک کہ تم نے قبریں جا دیکھیں“سورہ التکاثر آیت نمبر ایک اور دو۔ کیا ہمیں اپنی ضرورت سے زیادہ کمانے کی اجازت نہیں ہے بالکل ہے اگر ہم اعتدال اور جائز طریقے سے کمائیں حرص میں انسان اندھا ہو جاتا ہے اللہ نے جو ہمیں نعمتیں عطا کی ہیں اس کی بابت پوچھ گچھ ہو گی احتساب ہوگا سارا کچا چٹھا کھلے گا حساب دینا پڑے گا یہاں پر اور آخرت میں بھلے وہ جائز طریقے سے کمایا گیا ہے یا ناجائز ذریعے سے تو ہمیں اس بارے فکر مند ہو نے کی ضرورت ہے ہم جو پیسہ کماتے ہیں اسے دو طرح سے پاک صاف کیا جاسکتا ہے، اس کمائی سے حکومت وقت کو کہ جس نے ہماری اور ہمارے مال کی حفاظت کی ذمہ داری لی ہوئی ہے اسے کمائی گئی رقم سے بروقت ٹیکس ادا کر دیا جائے اور دوسرا زکواة نکال دی جائے، فائدے؟ اس سے حساب کتاب رہے گا جب دو دفعہ حساب کتاب اس دنیا میں ہی ہو جائے گا تو پھر آخرت میں آسانی ہو گی دنیا میں بھلائی ہوگی قانون نافذ کرنے والے اداروں کو بروقت تنخواہیں ملیں گی وہ اپنی ذمہ داریاں احسن طریقے سے سرانجام دے سکیں گے۔ اس کے علاوہ انتظامی امور ادا کرنے والے ملکی سرحدوں کی حفاظت کرنے والے تعلیم اور صحت کی سہولیات مہیا کرنے والے ٹرانسپورٹ اور رسل و رسائل مہیا کرنے والے ادارے چل سکیں گے۔ ترقیاتی و مالیاتی سکیموں کے لیے فنڈز بھی مہیا ہونگے معاشرہ سکون سے آگے بڑھے گا لیکن اگر ہم ٹیکس ادا نہ کریں اور حرص و لالچ میں آکر اپنے حصے کا ٹیکس دینے کی بجائے چوری کریں تو دنیا میں یہ سب اوپر بیان کئے گئے عوامل رک جائیں گے اور معاشرے میں ان ریسٹ پیدا ہو جائے گا، مارا ماری ہو گی، جلاو¿ گھیراو¿ ہوگا قتل و غارت گری ہو گی چوری چکاری ہو گی امن و امان کا مسئلہ پیدا ہو گا بے راہروی اور ناخواندگی ہو گی ناانصافی ہو گی بدامنی ہوگی رشوت ستانی ہو گی اور یہی کچھ آجکل ملک پاکستان میں ہو رہا ہے۔ بائیس کروڑ کی آبادی میں بیس لاکھ کے قریب لوگ ٹیکس ادا کرتے ہیں چار ہزار ارب ٹوٹل ٹیکس اکٹھا ہوتا ہے جس میں سے ادھار لیے گئے قرضوں کی اقساط ادا کرنے کی مد میں چلا جاتا ہے اور بجٹ خسارہ دور کرنے کے لئے مزید قرضوں کا بوجھ ملک کے غریب عوام پر لاد دیا جاتا ہے حکمران مزید ٹیکس لگاتے ہیں مہنگائی مزید بڑھتی ہے افراتفری غربت میں مزید اضافہ اور غریب خودکشی پر مجبور یہ ایک گھن چکر ہے جس میں پھنس کر ملکوں کا دیوالیہ نکل جاتا ہے ہمیں سوچنا ہو گا ہمیں اپنے حال اور اپنی آنے والی نسلوں بارے سوچنا ہوگا کیا ہم اسی گھن چکر کا شکار رہیں گے کیا ہم اسی طرح ذلت کی زندگی گزارنے پر مجبور رہیں گے نہیں ہمیں اپنے حصے کا ٹیکس دینا ہوگا ہمیں ملکی ترقی میں اپنا حصہ ڈالنا ہوگا ہمیں حرص سے باز آنا ہوگا کہ حرص انسان کا اندھا کر دیتی ہے
٭٭٭