سردار محمد نصراللہ
قارئین وطن! مسلمانوں کی تاریخ یوں تو میر جعفروں اور میر صادقوں سے بھری پڑی ہے مسلمانوں کا ہر دور ان سانپوں اور ازدھوں کو اپنی باہوں میں لے کر چلتا رہا ہے یہ سانپ بڑے دلفریب چہروں میں ہماری نظروں کے سامنے ناچتے گھومتے رہتے ہیں اس ہجومِ ناز میں وزیر اعظم ملیں گے فوج کے سپہ سالاروں سے لے کر نچلے درجے کے افسر شامل ملیں گے صحافتی دنیا تو ان میروں سے بھری پڑی ہے اور تو اور بیروں خانساموں ڈرائیوروں کی شکل میں نظر آئیں گے ۔
قارئین وطن! میں آجکل خلافتِ عثمانیوں کے جری سچے عاشقِ رسول خلیفہ عبدالحمید کی زندگی پر بنی تاریخی فلم بڑے انہماک سے دیکھ رہا ہوں جو نہ صرف یہودیوں نصرانیوں اور عربوں کی شازشوں کا شکار تھا بلکہ اس کے رشتہ دار اور نمک خوار سب میر جعفروں کا کردار ادا کر رہے تھے ان کرداروں کو دیکھ کر مجھے اپنے مرشد علامہ اقبال کے نیچے درج شعر کی سمجھ آئی !
عثمانیوں پہ کوہ غم ٹوٹا تو کیا غم ہے
کہ خون صد ہزار انجم سے ہوتی ہے سحر پید
اور جب میں اپنے وطن پاکستان کی طرف دیکھتا ہوں تو عبدالحمید کے دور کا ایک ایک منظر میری نظر کے سامنے دوڑنے لگتا ہے اور میں کانپ جاتا ہوں دور کیوں جاتے ہیں آپ تین مرتبہ کا رام گلیوں سے اٹھایا ہوا باو¿ نواز شریف جس کو وزیر اعظم کے رتبہ پر پہنچایا وہ ملک سے باہر بیٹھ کر غداری کا سہرا پہنے نمک حلالی کا فرض چکا رہا ہے اور تو اور پچھلے دنوں سوشل میڈیا پر ایک کلپ وائیرل ہوا جس کی تفصیل مجھے پتہ چلی وہ یہ ہے کہ اسامہ بن لادن کی نشاندہی کرنے والوں میں ایک جرنل صاحب بھی ہیں جن کو دو تین ملین ڈالر اور بالٹی مور امریکہ میں ایک خوبصورت بنگلہ بھی جعفری کردار ادا کرنے پر پیش کیا گیا اس کلپ کی خوبصورت یا بدصورتی یہ تھی کہ ۱۴ اگست کو جرنل صاحب اور بیگم صاحبہ نے انعامی بنگلہ میں جام و جم کی محفل سجائی مہمانوں میں انڈئین اور کچھ پاکستانی اپنی بیگیماتوں کے ساتھ ہاتھوں میں جام لہرا رہے تھے اور بیگم صاحبہ “ اے وطن کے شجیلے جوانوں میرے نغمہ تمھارے لئیے ہیں ملکہ ترنم نور جہاں کو تو قبر میں بھی غش پڑ ے ہوں گے کہ ان کے گائے ہوئے نغمہ کے ساتھ کیا ہو رہا ہے اور بیگماتوں اور سرداروں کے ہاتھوں میں شیشہ میں اچھلتی مسرت کو دیکھ کر میرا دل کوئیلوں پر مچل رہا تھا ۔
قارئین وطن ! وزیر اعظموں ، جرنلوں انٹیلجنس ایجنسیوں اور وزیروں کے میر جعفری کاروانِ میں ایک بڑا نام “فار ایسٹ فائنینشل ٹائم سے اپنا کیرئیر شروع کرنے والا جرنلسٹ حسین حقانی بھی ہے جس کو سب سے پہلے جرنل ضیا الحق کی گود میں بٹھایا گیا اور اس نے پھر اپنے جانِ نظر و پسر میاں نواز شریف جس کو اس نے اپنی عمر بھی لگ جانے کی دعا دی تھی نے تحفہ کے طور پر دیا جس کو نواز شریف نے سب سے پہلے انفارمیشن کا معاون خصوصی وزیر کے درجہ کا بنایا اس کے فرائض منصبی میں دو کام تھے ایک موصوف کو انگریزی پڑھانیاور دوسرا صحافتی معاملات پر نظر رکھنا اور بے نظیر کے خلاف پراپگنڈا مشینری کو تیل دیتے رہنا اور اس کے کارناموں میں بے نظیر کی ننگی تصویریں جہاز سے پھکوانی اور جاگ پنجابی جاگ تیری پگ نوں لگ گیا داغ بس اس کے بعد تو حضرت حقانی پر ہر طرف سےانوار کی نوازشات برسنے لگی نواز کی گود سے اترے تو جتوئی مرحوم کی بگل میں پہنچے وہاں سے اترے تو اسی بینظیر کے قدموں میں اماں ملی جس کی ننگی تصویریں جہاز سے پکھواتے اور سیکورٹی رسک جیسے جملہ کسے جاتے اپنی گود میں لیتے وقت نہ محترمہ کو شرم آئی نہ حقانی کو پھر مسٹر دس پرسنٹ زرداری کی آنکھ کا تارا بنے اس وقت تک یہ بڑے صاحب سی آئی اے کہ منظور نظر بن چکے تھے صرف ایک مثال زرداری نواز شریف کو جاتی عمرہ ملنے جاتا ہے دونوں طرف کے بڑے باہر کھڑے تھے اور نواز زرداری ون ٹو ون ملاقات میں موصوف حقانی صاحب اندر تھے جبکہ نواز بلکل نہیں چاہتا تھا ان دنوں وہ اس سے نفرت کرتا تھا لیکن سی آئی اے کے ہاتھوں مجبور تھا انہوں نے اس کو بطور اپنا نمائندہ بھیجا تھا پھر حضرت کو زرداری نے سفیر بنا کر بھیجا بلکہ امریکہ کی درخواست پر لگایا گیا اور اس کہ بعد چراغوں میں روشنی نہ رہی پاکستان پر بلیک واٹر کے دروازے کھل گئیے پھر افواج پاکستان کے خلاف زرداری اور نواز دونوں کی مل کر لابی شروع کر دی کیا کیا بتاو¿ں اپنے اس حسین حقانی کی کہانی جس کو میں ۳۵ سالوں سے جانتا ہوں آج اس کو پاکستان کا اثاثہ ہونا تھا کہ کون سا رتبہ اس کو میرے وطن کی مٹی نے نہیں دیا وزارتیں سفارتیں کیا کچھ نہیں ملا لیکن کیا خوب بزرگ کہ گئیں ہیں کہ” لاکھا من دودھ پیا دو سپاں دے پت کدی میت نہ ہوندے “اب باقائدہ وہ سی آئی اے کے لئے کام کر رہا ہے اور افواج پاکستان کے خلاف پروفیسر کا روپ دھارے امریکی جریدوں بلکہ بھارتی جریدوں اور الیکٹرانک میڈیا میں منفی پراپگنڈا کر رہا ہے اور تو اور یہ یہاں پر اور نجم سیٹھی جیسے میر جعفر پاکستان میں بیٹھ کر اور نواز شریف لنڈن میں بیٹھ کر میرے اور آپ کے وطن پاکستان کی سلامتی کے خلاف سازشیں کر رہے ہیں یہ انعام پاکستان کو مل رہا ہے ان لوگوں کو بامِ عروج پر پہنچانے کا خدارا ان میر جعفروں اور میر صادقوں کے اس ہجوم ناز میں چھپے سانپوں کو کچل دے ورنہ یہ پاکستان کو کھا جائیں گے۔
قارئین وطن ! میں پاکستان کے تقریباً ہر ادار ے کے رموز سے واقف ہوں کہ ایک پولیٹیکل گھر سے تعلق ہونے کی وجہ سے فوج اور سول کے لوگوں کو جانتا ہوں کہ بہت سے عزیز اور بھائی بہن فوج اور سول کے اداروں میں اعلیٰ مقام پر فائیز رہے ہیں میں یہ سمجھنے سے کاسر ہوں کہ جرنل کیانی نے کون سی چھڑی گھماءہے کہ وہ آسٹریلیا میں ایک جزیرہ کے مالک ہیں مجھے ایک عراق کے انٹیلیجنس ہیڈ کا واقعہ یاد آرہا ہے جو صدام حسین کی ناک کے نیچے کام کر رہا تھا اور ساری خبریں امریکہ کو پہنچا رہا تھا امریکن WMD کو بہانہ بنا کر حملہ کی تیاری میں تھے انٹیلیجنس ہیڈ نے ان کو بتا یا بھی کہ عراق کی سر زمین میں کہیں بھی ایسی کوئی چیز نہیں ہے تو پھر انہوں نے اس کو کہا کہ تم ایک خط لکھو کہ امریکہ کی ورلڈ ٹریڈ سنٹر کو تباہ کرنے والوں کو عراق میں تربیت دی گئی ہے اور ابھی یہ خط لنڈن پہنچا بھی نہیں تو وہاں کے اخباروں میں چھپ چکا تھا اس کارنامے کی عوض انٹیلیجنس ہیڈ صاحب کو جو ایک جرنل تھا کو امریکہ سرکار نے پانچ ملئین ڈالر اور اردن میں ایک خفیہ مقام پر پیلس لے کر دیا کیانی صاحب تو کہیں اس زمرے میں تو نہیں آتے تو انہوں نے تو کہیں میر جعفری کھیل تو نہیں کھیلا ورنہ آئی لینڈ خریدنا ایک فوجی کے لئے آسان کام نہیں ہے اللہ پاکستان کو اپنے حفظ و آمان میں رکھے کہ قائید اعظم کہ اس پاکستان کو بنانے میں ہماری ماو¿ں بہنوں بچوں اور بڑے بوڑھوں کو آگ اور خون کو عبور کرنا پڑا ہے، اے خدا میرے پاکستان کو ان غداروں سے بچا آمین !
٭٭٭