پیر مکرم الحق،انڈیانا
امریکہ میں ایک منتخب صدر کی مدت اقتدار چار سال ہوئی ہے۔ہر چار سال بعد صدارتی انتخابات ہوتے ہیں لیکن اکثر منتخب صدر اپنی پہلی چار سالہ مدت مکمل کرنے کے بعد دوسری مرتبہ بھی ایک اور مدت مکمل کرنے کے بعد دوسری مرتبہ بھی ایک اور مدت کیلئے منتخب ہوجاتے ہیں۔جس طرح صدر ٹرمپ سے پہلے بارک اوبامہ2008ءسے لیکر2010تک دو مرتبہ منتخب ہو کر آٹھ سالہ تک امریکی صدر رہے۔ڈونلڈ ٹرمپ بھی تگ ودو کر رہے ہیں کہ وہ دوسری مرتبہ بھی منتخب ہوجائیں۔جس کے لئے انہوں نے اپنے اقتدار کے پہلے دن سے ہی کاوشیں شروع کر رکھی تھیں اور ایک لحاظ سے اس وقت ہی محسوس ہورہا تھا کہ وہ اس کوشش میں سرخرو بھی ہوجائیں گے۔حقیقت کو سب ہی تسلیم کرتے ہیں کہ صدر ٹرمپ کی حکومت میں اسٹاک مارکیٹ میں کاروبار تیز ہی رہی ہے۔کروڑ پتی اور ارب پیتی لوگوں کو زبردست قسم کے ٹیکس مراعات دیکر انہیں نہایت خوش اور امیر کردیا ہے لیکن غریب امریکیوں کو کوئی خاص فائدہ نہیں پہنچا سکے۔جی ہاں امیر ترین امریکیوں کی قسمت بدل گئی،میزان کے مالک کی دولت میں پچاس فیصد سے زیادہ اضافہ ہوگیا۔اس طرح بل گیٹس اور فیس بک کے مالک مارک زکربرگ بھی ایسے ہی خوش قسمت گروہ میں شامل ہوگئے جن کی مالی حالات میں دن دوگنی اور رات چوگنی اضافہ ہوگیا۔لیکن پھر بھی صدر ٹرمپ کے سرمعیشت کو بہتر توازن دینے کا سہرا سجا دیا گیا۔تجزیہ نگار تو یہ کہتے پائے گئے ہیں کہ معاشی میدان میں بش دور کی معاشی دیوالیہ پن سے نکالنے کے مشکل عمل کا حصول صدر اوباما کی کوششوں کا نتیجہ تھا بہر صورت خوش قسمتی سے صدر ٹرمپ کو جب اقتدار کی باگ ڈور جب تھمائی گئی تو معیشت کافی قدر اچھی حالت میں تھی اور اس کو بہتر کرنے کیلئے صدر ٹرمپ نے اقتدار میں آتے ہیں امرا کے طبقہ کو تاریخی ٹیکس مراعات دیکر انکا تعاون اور حمایت حاصل کرلی تھی خود ٹرمپ کا تعلق بھی ارب پتی امریکیوں کے گروہ سے ہے اس لئے اگر دیکھا جائے کہ یہ ایک قدرتی گٹھجوڑ بنگیا۔معاشی استحکام کسی بھی امریکی صدر کی کامیابی کی کنجی ثابت ہوتی رہی ہے۔اس لیے ہر دور کے منتخب صدر کی یہی کوشش ہوتی ہے کہ ملک میں افراط زر نہ ہو اور بیروزگاری کے جن کو قابو میں رکھتے ہوئے اسمیں مزید کمی کی جائے۔ماضی گواہ ہے کہ جس امریکی صدر نے یہ دو کام خوش اسلوبی سے انجام دیئے وہ دوبارہ صدر منتخب ہوگئے۔جس بات یا پہلو کو خود صدر ٹرمپ نے الجھا دیا وہ انکے تارکیں وطن سے حقارت آمیز رویہ ہے مسلمانوں پر امریکہ میں داخلے پر پابندی کی بات اور نسلی برابری میں پیشرفت کے بجائے سابق صدر اور صدر ٹرمپ کے سیاسی ہیرو رچرڈنکسن کی نقل کرتے ہوئے جن کے نعرے کوسیاہ فام امریکیوں نے ایک وارننگ یا دھمکی سمجھ لیا،سیاہ فام کی زندگیاں بھی اہم ہیں۔اس تنظیم کو صدر ٹرمپ کے دور حکومت میں سیاہ فام امریکیوں کے حلقہ میں زبردست پذیرائی حاصل ہوگئی اور بعد میں ترقی پسند سفید فام لوگوں نے بھی اس تنظیم کو ایک معتبر پلیٹ فارم کی حیثیت کے طور پر تسلیم کرلیا اور آجBLMامریکی سیاست کا ایک اہم اور موثر ستون بن چکا ہے۔صدر ٹرمپ نے جبکہ اس تنظیم سے بیزاری کو چھپانے کی کوشش بھی نہیں کی ہے۔2015ءجب پہلی مرتبہ اپنے صدارتی امیدوار ہونے کا اعلان کیا تھا جوکہ نشر تو نیویارک کے گولڈن ٹرمپ ٹاور سے کیا گیا تھا لیکن پیغام میں انہوں نے ان بھولے امریکیوں کو یقین دلایا تھا کہ وہ انکا مقدمہ لڑنے کے لئے سیاست میں آرہے ہیں لیکن بعد میں انہوں نے پلٹ کر اس دیہاتی امریکیوں کی طرف دیکھا تک نہیں پہلے تو چین کے صدر پیشی کی تعریفوں کے پل باندھتے رہے مگر پھر وہ چین کو اپنا سب سے بڑا حریف کہنے لگے۔اور ایک بڑی ٹریڈ جنگ شروع کردی اور چین سے آنے والی اشیا پرڈیوٹی کئی گنا بڑھا دی جس سے ان کاشتکاروں اور دیہاتی صنعتکاروں کا چین سے روزگار منسلک تھا انہیں معاشی طور پر بڑا خسارہ برداشت کرنا پڑالیکن صدر ٹرمپ کو سب سے بڑا جھٹکا کروناوائرس کے امریکہ پہنچنے پر لگا۔انہیں معلوم ہوگیا تھا کہ یہ وائرس کے امریکہ پہنچنے پر لگا۔انہیں معلوم ہوگیا تھا کہ یہ وائرس کئی مہینوں تک امریکی معیشت کو ڈبو دیگا اور جو حالات اس بیماری سے امریکی معیشت کو دیمک کی طرح چاٹ لے گی تو اسکا انہیں زبردست سیاسی نقصان ہوگا اور یہی ہوا آج بھی امریکا میں ساڑھے چھ سات فیصد بیروزگاری ہے۔چالیس لاکھ امریکی اب غربت کی لیکر سے نیچے رہنے والوں میں شامل ہوچکے ہیں۔آسمانی آفتوں میں تو پہلے ہی سے امریکہ ٹرمپ کی پوری حکمرانی مدت میں گھرا رہا۔سمندری طوفان سیلاب جنگلوں کی آگ، کہیں آگ جیسی گرمی تو کہیں گرمیوں میں برفانی ہوئیں یوں محسوس ہوتا تھا کہ صدر ٹرمپ کی گناہوں کی سزا پورے امریکہ کو جھیلنی پڑ رہی تھی اوپر سے سونے پر سہاگا کی صورت میں ہے وائرس جیسے صدر ٹرمپ، چائینہ وائرس کہتے ہیں اس نے بھی صدر ٹرمپ کا گھر”وائٹ ہاﺅس“ کی راہ دیکھی اب تک صدر ٹرمپ اور انکے خاندان یعنی اہلیہ اور بچہ بیرن ٹرمپ سمیت تین درجن لوگ اس موذی بیماری سے متاثر ہوگئے۔دوسری طرف صدر اوباما کے نائب صدر جوبائیڈن جوکہ نصف صدی کے قریب امریکی سیاست کے معتدل اور تجربہ کار کھلاڑی ہیں۔انہوں نے 77سال کی عمر میں صدر ٹرمپ کو للکار دیا اور اب وہ اپنے پرانے باس صدر اوباما اور اپنی بہترین ٹیم کے ساتھ مدمقابل ہیں۔اور باوجود اس آمر کے کہ وہ ایک سادہ منشن طبیعت رکھنے والے عام انسان ہیں۔ان پر ڈیموکریٹک پارٹی کے علاوہ ریپبلکن پارٹی کے اکابرین کی بھی نظر کرم ہے اور وہ قومی سطح پر آٹھ سے بارہ پوائنٹس سے صدر ٹرمپ سے آگے آرہے ہیں۔لیکن2016ءکے انتخابات میں بھی ہیلری کلنٹن آگے ہی تھیں۔مختلف انتخابی سروے میں چار سے پانچ پوائنٹس کی برتری حاصل تھی۔اس لیے کئی ماہر تجزیہ نگار بھی کسی وثوق کے ساتھ پیشن گوئی کرنے سے کترا رہے ہیں لیکن جب یہ کالم آپ قارئین پڑھ رہے ہوںگے۔انتخابات میں تین یا چار دن کا وقت رہ گیا ہوگا۔تین نومبر بروز منگل امریکا میں انتخابات ہو رہے ہیںجس کا نتیجہ مکمل طور پر6/7یا دنوں میں واضح ہوجائے گا۔