کامل احمر
مسٹربائیڈن اور صدر ٹرمپ کے درمیان دوسری ڈیبیٹ کے نتیجے میں صدر ٹرمپ نے بائیڈین پر کچھ سبقت حاصل کی اور پارٹی کا گرتا ہوا مورال کچھ سنبھل گیا۔اس دفعہ کا الیکشن انکے لئے”DO OR DIE)کی مثال بن گیا ہے۔اور جیسا کہ ہم نے پچھلے کالم میں لکھا تھا وہ صرف اور صرف ان ریاستوں کے دورے کر رہے ہیں۔جہاں سے انہیں خدشہ ہے۔پاپولر ووٹ اور اسکے نتیجے میں الیکٹوریل ووٹ نکل سکتے ہیں۔بتاتے چلیںWINNER TAKES ALLکہ پاپولر(عوامی)اگر کسی امیدوار کے زیادہ ہیں چاہے ایک ہی ووٹ زیادہ ہ، الیکٹوریل ووٹ سب کے سب اسکی جھولی میں جاگرتے ہیں۔جس کے نتیجے میں پچھلی بار صدر ٹرمپ جیت گئے تھے لیکن اس دفعہ چونکہ عوام انکی کارکردگی دیکھ چکے ہیں۔ساتھ میں انہیں بائیڈین کی کارکردگی معلوم ہے کہ وہ47سال سے سیاست کی بساط سے جڑے ہوئے ہیں اور آٹھ سال اوبامہ کے ساتھ نائب صدر رہ چکے ہیں اس دوران انکے کریڈٹ میں صرف ایک بات سب کو معلوم ہے اور وہ ہے”اوبامہ ہیلتھ کیر“اور صدر ٹرمپ نے آتے ہی سب سے پہلا وار اس پر ہی کیا تھا جس سے کوئی فرق نہیں پڑتا کہ صحت علاج اور دواﺅں کی سہولتیں دینے والی کارپوریشن قانون میں کمند لگا کر اپنے فائدے کی بات کرتی ہیں اور اچھے خاصے(بظاہر عوام کے فائدے)بنائے گئے قانون کو بدل کر رکھ دیتی ہیں اس کی تفصیل الگ ہے فی الحال بات ہو جائے صدارتی انتخابات کی۔
صدر ٹرمپ نے اپنے صدارتی اور میں4سال کے اندر کافی قانون اور بل پاس کئے ہیں جس میں سب سے اول یہودیوں(اسرائیل) سے کئے گئے وعدے کے تحت ایمبیسی کو تل ابیب سے یروشلم شفٹ کرنا ہے۔دوسرے اسرائیل کو فلسطینیوں کی زمین پر عمارات کھڑی کرنے کی اجازت انکا حق قرار دینا ہے۔انکا تیسرا کارنامہ مشرق وسطیٰ کی ریاستوں کے اسرائیل کے ساتھ امن معاہدے کے نام پر سفارتی تعلقات کی شروعات کرانا ہے جو آہستہ آہستہ وسیع تر ہوتا رہے گا۔سوڈان تیار ہے اسرائیل سے تعلقات کے لئے انکا ایک کارنامہ چین کے ساتھ تجارت کے باب میں ٹیرف(TARRIF)کے قانون میں تبدیلی اور ملکی صنعتوں کی امداد مطلب ملک میں ہی صارفین کی ضرورت کے سامان کی تیاری میں جس کی وجہ سے وہ ریاستیں جہاں جہاں فیکٹریاں ہیں کے عوام خوش ہیں اور زراعتی ریاستوں جن میں آیووا(10WA)جہاں کثرت سے مکئی کی پیداوار ہے اور مکئی کو کشید کرکےETHANOLبنانے سے جو پیٹرول(گیس)میں10فیصدی ملائی جارہی ہے۔اس سے مالی حالت مستحکم ہوئی ہے سب ٹرمپ کے ووٹ ہیں ویسے بھی سفید فام امریکن جو ہمیشہ سے امریکہ پر حکومت کرتے رہے ہیں اپنا تسلط کھونا نہیں چاہتے۔
پچھلے ہفتہ ٹرمپ، فلاریڈا، اوبائیو، اور پنسلوانیا میں جگہ جگہ جاکر عوام کو خوش کر رہے ہیں شاید ہی اس سے پہلے کسی امیدوار نے اتنی بھاگ دوڑ کی ہو کہ ایک دن میں چار چار شہروں میں ڈیڑھ ڈیڑھ گھنٹے کی تقریر کی ہو۔صدر ٹرمپ کا سلوگن یہ بھی ہے کہ بائیڈین صدر بنے تو امریکہ پر چین حاوی ہو جائے گا وہ پہلے سے ہی حاوی ہے کہ ہر جگہ گھر کے کونے کونے سے لے کر دوکانوں میں استعمال(روزمرہ)کی ہر چیز چین کی بنائی ہوئی ہے کئی بڑے اسٹور جس میں وال مارٹ، ٹارگیٹ اور ڈیپازٹ منیٹل اسٹور چین کی بنائی چیزوں سے بھرے ہوئے ہیں یہاں ہم کہتے چلیں کہ چین کو روکنا یا مقابلہ ناممکن ہے۔یہاں یہ بتاتے چلیں کہ صدر ٹرمپ کے داماد بیرونی پالیسی بنا رہے ہیں۔اور کسی سیاست داں کو کوئی اعتراض نہیں وہ نتھن یا ہوکے چہیتے ہیں اور اس سے زیادہ کیا کہیں۔ٹرمپ کا کہنا ہے کہ وائرس کی ویکسین بہت جلد آجائیگی جس میں ایک بار ڈاکٹروں کے کہنے کے مطابق تیزی آجائیگی آرہی ہے اور لوگ پریشان بھی ہیں لیکن عادی ہوچکے ہیں بہت ممکن ہے انتخابات سے چند دن پہلے اعلان ہوجائے اس ویکسین کے پیشگی آرڈر دیئے جاچکے ہیں۔ہر چند کہ اس وائرس سے امریکہ کے ہر شعبے بالخصوص، ہوٹل، اور سیاحت پر بھاری ہتھوڑا چلا ہے لیکن صدر ٹرمپ نے مالی امداد کا وعدہ کیا ہے پہلے پیکیج میں وائرس کے نتیجے میں عوام کی ملازمتیں ختم ہونے کے نتیجے میں1200ڈالر فی کس ملا تھا اور بے روزگاری چیک کے علاوہ چھ سو ڈالر بھی ملے تھے۔اب دوسرا پیکیج ہاﺅس اسپیکر نینسی پلوسی کی میز پر بحث کا نشانہ بنا ہوا ہے یعنی متنازعہ بنایا جارہا ہے جس کااثر صدر ٹرمپ کے انتخاب پر ہوسکتا ہے۔
دونوں طرف دھواں دار تقاریر جاری ہیں جن سے دھواں بھی نکل رہا ہے عوام اپنا ارادہ بنا چکے ہیں اور3نومبر سے پہلے ہی پچھلے سنیچر سے ووٹنگ شروع ہوچکی ہے۔اب تک ساڑھے چھ کروڑ ووٹ پڑ چکے ہیں علاوہ ڈاک سے وصول ہونے والے ووٹوں کے صدر ٹرمپ فلاریڈہ میں اپنا ووٹ ڈال چکے ہیں۔اور عام شہری بھی بڑی بڑی قطاروں میں کافی دیر سے کھڑے نظر آرہے ہیں۔یہ جوش وخروش اس سے پہلے پچھلے سالوں میں کچھ نہیں دیکھا گیا ہے پچھلے دنوں25مئی کو منی سوٹامیں جارج فلائڈ نامی44سالہ شخص جو پولیس آفیسر کی انسانیت سوز ایکشن کے نتیجے میں جان سے ہاتھ دھو چکا تھا اور اسکے نتیجے میں تمام ڈیموکریٹک ہولڈ ریاستوں میں احتجاج کے نام پر ہنگامے شروع ہوگئے تھے اور لوگوں نے قانون کو اپنے ہاتھ میں لے کر جو ہنگامہ آرائی، لوٹ مار، توڑ پھوڑ اور مارا ماری کی تھی اور وہاں کے ڈیموکریٹک میئر، گورنر خاموش بیٹھے تماشہ دیکھ رہے تھے وہ قانون کی پاسداری کرنے والے عوام کو ڈیموکریٹک سے دور کر چکے ہیں جس کا فائدہ صدر ٹرمپ کو ہوگا اور یہ مظاہرے اور تخریبی حرکات جس کا سلوگنBLACK LIFE MATTERتھا اور جس کا جادو ختم ہوچکا ہے۔کہ اس میں شامل افریکن امریکن سے زیادہ سفید فام نوجوان نسل شامل تھی جس کے لئے صدر ٹرمپ نے فاشت کا لفظ استعمال کیا تھا مختصر انداز میں بتاتے چلیں کہ صدر ٹرمپ کے لئے یہ انتخاب جیتنا بے حد مشکل ہے اس ملک میں گوروں کی آبادی760فیصدی سے کچھ اوپر ہے اور سیاہ فام صرف13فیصد سے کچھ زیادہ ہیں اسکے علاوہ یہودی، مسلمان، ہندو ہسپانوی ہیں اندازہ لگالیں بائیڈین جو خود کوئی اثر نہیں ڈال سکتے ہیں۔عوام پر انکے لئے کیلی فورنیا، نیویارک، فلاریڈہ، الیانوائے جیسی ریاستوں کے عوامی اور الیکٹوریل ووٹ کافی نہ ہونگے۔یہ بھی کہا جارہا ہے ایران اور روس نے ووٹر لسٹ حاصل کرلی ہے اگر پول کے نتائج کو بھی دیکھیں جہاں ایک دو فیصدی کا فرق ہے نتیجے میں ڈانلڈ ٹرمپ کی جیت ہوگی ممکن ہے التواءسے ہو یہ ہمارا تجزیہ ہے۔
٭٭٭