شمیم سیّد،بیوروچیف ہیوسٹن
اسکول کی کلاس میں اُستاد اپنے طالبعلموں کو پڑھا رہا تھا کہ ایک طالبعلم نے کھڑے ہو کر شکایت کی کہ سر میرا فون چوری ہو گیا ہے میری کلاس میں سے کسی نے چُرا لیا ہے۔ اُستاد نے تمام طالبعلموں سے پوچھا کہ کسی نے اگر فون چوری کیا ہے تو واپس کر دے لیکن کسی نے جواب نہیں دیا اس پر استاد نے کہا کہ اب میں تمام کلاس کی تلاشی لوں گا لیکن ا ن کی ایک شرط یہ تھی کہ تمام طلباءکی آنکھوں پر پٹی باندھی اور انہوں نے ایک ایک لڑکے کی جیب سے فون نکال لیا لیکن کسی کو نہیں بتایا کہ کس کی جیب سے فون نکلا ہے جس کی وجہ سے اس لڑکے کی عزت بھی رہ گئی اور فون بھی مل گیا جس کا تھا۔ پھر خدا کا کرنا ایسا ہوا کہ دس سال کے بعد ایک فنگنشن میں ایک شخص کو ایوارڈ دیا جانا تھا اور وہی استاد وہاں پر چیف گیسٹ تھے جس کو وہ ایوارڈز ملنا تھا وہ چیف گیسٹ کے پاس آیا اور کہا کہ سر میں آپ کا بہت شکر گذار ہوں آپ نے مجھے پہچانا نہیں میں وہی لڑکا ہوں جس کی جیب سے آپ نے چوری کا فون نکالا تھا اس واقعہ نے مجھے اس قدر متاثر کیا کہ آپ نے میرا پردہ رکھا اور کسی کو بھی نہیں پتہ چلا کہ میں چور تھا اس دن سے میری دنیا بدل گئی اور آج میں ایک بڑا کاروباری انسان بن گیا ہوں اس پر اس استاد نے کہا کہ بیٹا میں نے جب تمام لڑکوں کی آنکھوں پر پٹی باندھی تھی تو میں نے اپنی آنکھوں پر بھی پٹی باندھ لی تھی تاکہ میں تم کو بھی نہ پہچان سکوں اور تم میرے سامنے آﺅ تو شرمندہ نہ ہو مجھے بھی نہیں پتہ چلا کہ چور کون ہے اور میں نہیں چاہتا تھا کہ میرا طالبعلم میرے سامنے آئے تو شرمندہ ہو یہ تھا وہ سبق جو استاد نے دیا کہ کسی کے عیب کو نہ اُچھالو کسی کی ہتک نہ کرو جہاں تک ہو سکے درگزر سے کام لیا جائے اس دفعہ امریکن الیکشن میں جس طرح ہماری کمیونٹی نے بڑھ چڑھ کر حصہ لیا ہے اس سے یہ بات تو ثابت ہو گئی کہ ہماری کمیونٹی خاص طور پر مسلمان کمیونتی نے یہ ثابت کر دیا کہ وہ کم از کم فورڈ بینڈ کاﺅنٹی میں تو اکثریت میں ہیں اور وہ جب چاہیں الیکشن میں اپنے نمائندوں کو جتوا سکتے ہیں۔ جس کی سب سے بڑی مثال ڈیمو کریٹک امیدوار کانگریس مین کے الیکشن میں ہارنے کی وجہ صرف یہی مسلم ووٹرز ہیں جبکہ ڈیمو کریٹک فورڈ بینڈ کاﺅنٹی سے زیادہ امیدوار جیتے ہیں جن میں ہمارے پاکستانی پہلے مسلمان نوجوان نبیل شائق کانسٹیبل امریکہ کی تاریخ کے پہلے مسلمان پاکستانی کانسٹیبل بنے ہیں اور غالباً ڈیمو کریٹک کی تاریخ میں فورڈبینڈ کاﺅنٹی میں پہلے افریقن امریکن ایرک فیگن شیرف کے عہدے پر فائز ہوئے ہیں۔ جو کہ ایک تاریخی واقعہ ہے۔ شری کلکرنی کے ہارنے کی وجہ صرف اور صڑف ایس ایس اور را کے ساتھ روابط ہونے کی وجہ سے ہوئی، ورنہ پرائمری الیکشن میں تمام مسلمانوں اور خاص طور پر پاکستانیوں نے ان کو ہی ووٹ دیئے تھے بہر حال کانگریس مین کی نشست پر ان کے مقابل ری پبلکن امیدوار ٹروئے نیلز جیت گئے اور اسلامک سوسائٹی آف گریٹر ہویسٹن کے صدر سہیل سید نے مریم مسجد میں بتا دیا کہ جو بھی جیتنے والے امیدوار ہیں ان کو سب مسلمانوں کو اعتماد میں رکھنا وہگا کیونکہ مسلمانوں نے اس الکشن میں ثابت کر دیا ہے کہ وہ ایک پاور بن چکی ہے ان کے مفادات کو ترجیح دینی ہوگی، مریم مسجد میں نماز جمعہ کے بعد ڈیمو کریٹک اور ری پبلکن امیدواروں نے شرکت کی اور کانگریس میں ٹروے اور ہارنےو الے شری کُلکرنی نے گلے مل کر ایک دوسرے کو مبارکباد دی جو کہ بہت اچھی پیش رفت ہے، ہماری کمیونٹی بھی دو حصوں میں بٹ گئی تھی اب الیکشن ختم ہو گئے ہیں اور ایک دوسرے کو صدق دل سے معاف کر دینا چاہیے اور خاص طور پر ہمارے پاکستانی کموینٹی کو اب یہ مل کر سوچنا ہے کہ آگے بھی بہت سی نشستیں ہیں جو خالی ہیں ہمیں ری پبلکن اور ڈیمو کریٹک کے چکروں سے نکل کر ایک متحد ہو کر اپنے ایسے لوگوں کو آگے لانا ہے جو ہماری کمیونٹی کو آگے لے کر چلیں اور امریکن پالیٹکس میں بھرپور کردار ادا کر سکیں اور آخر میں یہی کہوں گا کہ اس استاد کی طرح اپنی آنکھوں پر پٹی باندھ لیں جس کو معلوم نہیں تھا کہ چور کون ہے ہمیں بھی وہ تمام آنکھوں پر بندھی ہوئی پٹیوں کو کھول دینا چاہیے دلوں کو صاف اور ایک دوسرے کو معاف کر دینا چاہیے جب ہم ایک ہوں گے تو کوئی دشمن ہماری صفوں میں نہیں گُھس سکے گا اس وقت جو بھی امیدوار کامیاب ہوئے ہیں وہ بھی ایک دوسرے کو کُھلے دل سے معاف کر دیں اور امریکہ کی ترقی میں اپنا کردار ادا کریں ”شاید کہ تیرے دل میں اُتر جائے میری بات“۔
٭٭٭