شمیم سیّد،بیوروچیف ہیوسٹن
پاکستانی ٹیم کا دورہ¿ نیوزی لینڈ اختتام پذیر ہونے کو ہے، ہمارے کوچ وقار یونس کو پہلے ٹیسٹ کے بعد بلوا لیا گیا ہے اور ہو سکتا ہے کہ پاکستان کی ٹیم دوسرا ٹیسٹ بھی ہار جائے کیونکہ جس طرح نیوزی لینڈ کی ٹیم کھیل رہی ہے اور اگر انہوں نے پاکستان کو 300 رنز کی لیڈ دےدی تو پھر پاکستان کو یہ میچ بچانا مشکل ہو جائےگا، اب ذرا نظر دوڑائیں ان بیانات پر جو سرفراز احمد کو ہٹانے کے بعد ہماری سلیکشن کمیٹی نے دیئے تھے کہ ہم سے پنگا نہیں لینا ورنہ کراچی والوں کا ہم وہ حشر کرینگے کہ زندگی بھر یاد رکھیں گے اور واقعی انہوں نے سرفراز احمد کو صرف جوتے اٹھانے اور پانی پلانے پر لگا دیا اور وہ شریف النفس انسان خاموشی سے یہ تمام اذیتیں جھیل رہا ہے کیونکہ اسے یقین کامل ہے کہ جس دن اس کی واپسی ہوئی وہ اپنی کارکردگی سے دوبارہ اپنی جگہ بنائے گا اسی لیے اس کو نہ ہی ٹی ٹوئنٹی اور نہ ہی ٹیسٹ میچوں میں موقع دیا گیا جیسا کہ فواد عالم کےساتھ ہوا دس سال کے بعد اس کو موقع دیا گیا اور اس نے ثابت کر دیا کہ اس کےساتھ زیادتی ہوئی تھی۔ اب اس کو موقع ملا تو اس نے ثابت کر دیا کہ وہ ایک بہترین کرکٹر ہے اس نے ہمت نہیں ہاری اور وہ ڈومیسٹک کرکٹ کھیلتا رہا اور آخر کار اس کو ٹیم میں شامل کر لیا گیا اور اگر خدا نخواستہ فواد عالم سنچری نہ کرتا تو شاید اس کے کیرئیر کا یہ آخری میچ ہوتا اور اس کو بھی باہر کر دیا جاتا، میرا مقصد یہاں یہ بتانا نہیں کہ اس وقت پاکستانی کرکٹ کن کن مسائل سے دوچار ہے وقار یونس نے جتنا نقصان ہماری کرکٹ کو پہنچایا ہے ،اس نے جتنا نام فاسٹ باﺅلر کی حیثیت سے کمایا تھا وہ اس نے کوچ بن کر ضائع کر دیا جیسا کہ محمد عامر نے صاف طور پر کہا کہ وقار یونس نے ہماری کرکٹ کو جتنا نقصان پہنچایا ہے وہ شاید کسی اور نے نہیں پہنچایا۔ مصباح الحق اور وقار یونس ہمیشہ سے ہی سرفراز کےخلاف رہے اور وہ اپنے مشن میں کامیاب رہے ہیں اب کیا تبدیلیاں آتی ہیں نئی سلیکشن کمیٹی بنے گی اور اگر عمران خان کو کرکٹ کو فروغ دینا ہے تو وہ فوری اقدام کریں اور ملک میں ڈومیسٹک ڈیپارٹمنٹ کرکٹ کو دوبارہ بحال کر دیں ورنہ ہماری کرکٹ کا اللہ ہی حافظ ہے۔ ہمارے اس ٹور میں جس کھلاڑی نے اپنی کارکردگی کا لوہا منوایا ہے وہ ہے محمد رضوان جس نے ثابت کر دیا ہے کہ وہ وکٹ کیپر کےساتھ ساتھ بیٹسمین بھی بہت عمدہ ہے اور ٹیسٹ میچوں کیلئے بہترین کپتان بھی ہے۔ سرفراز احمد کو ٹی ٹوئنٹی کی قیادت دےدینی چاہیے اس کی قیادت میں پاکستان چیمپئن بنا تھا، شان مسعود نے مایوس کیا ہے اتنے چانس کے باوجود وہ کچھ نہیں کر سکے اور اب تو یہ طے ہے کہ جو بھی کھلاڑی ٹیم میں آئےگا وہ اپنی پرفارمنس پر آئےگا۔ فہیم اشرف نے بھی اپنے آپ کو ثابت کر دیاہے، ظفر گوہر کو بھی کافی عرصہ کے بعد موقع دیا گیا اور اس نے جس طرح بیٹنگ کی اس نے ثابت کیا کہ وہ پاکستانی ٹیم میں بہترین آل راﺅنڈر کے طور پر جگہ بنا سکتا ہے، جہاں تک ہماری باﺅلنگ کا تعلق ہے شاہین شاہ آفریدی، محمد عباس نے بہت متاثر کیا ہے نسیم شاہ اور حسنین کو ابھی بہت محنت کرنی ہے اور ہمارے کوچ صاحبان اپنے فاسٹ باﺅلروں کو نوبال نہ کرنے کی پریکٹس کیوں نہیں کرواتے، عمران خان اور وسیم اکرم نوبالز کیوں نہیں کرواتے تھے، سری لنکا اور نیوزی لینڈ کے دورے سے ہمیں بہت سارے تجربے ہوئے ہیں جن کو سُدھارنے کی ضرورت ہے اور اب ساﺅتھ افریقہ کی نئی حکمت عملی کو ہمیں بھی اپنانا چاہیے بہت ساری تبدیلیاں لانی ہونگی، سلیکٹرز اور کوچ تبدیل کرنا ہونگے، نئے کھلاڑیوں کےساتھ سینئر کھلاڑیوں کو بھی ٹیم میں شامل ہونا چاہیے۔ہم نے تمام کوچ تو آزما لیے ہیں۔اب لگتا ہے کہ اوپننگ بیٹسمین کے لیے بھی کوئی نیا کوچ رکھا جائیگا۔اس وقت ہمارے اس سوئنگ کرانے والے بولر کی کمی تھی جبکہ نیوزی لینڈ کے بولروں اپنی سوئنگ بولنگ سے پاکستانی بیٹسمینوں کو کافی پریشان کیا ہے۔
٭٭٭