جاوید رانا، بیوروچیفشکاگو
لیجئے جناب! 31 جنوری گزر گئی، عمران خان کا استعفیٰ آیا، نہ پی ڈی ایم نے اپنے استعفے منہ پر مارے اور نہ ہی بلاول کے بقول دما دم مست قلندر ہوا۔ ہاں یہ بات واضح ہو گئی کہ بقول غالب ’پھرتے ہیں میر خوار کوئی پوچھتا نہیں‘ اس عاشقی میں عزتِ سادات بھی گئی“۔ تبدیلی حکومت یا اپوزیشن کی زبان میں سیلیکٹڈ کےخلاف گیارہ جماعتوں کا اتحاد یا فضل الرحمن کے لفظوں میں جہاد خود اپوزیشن کیلئے مذاق بلکہ افتاد بن کر رہ گیا ہے۔ دعوے، نعرے، دھمکیاں، الٹی میٹم، جلسے سب کے سب ہوا میں بکھر کر رہ گئے اور اب یوں لگتا ہے کہ پی ڈی ایم وینٹی لیٹر پر مصنوعی تنفس پر آخری سانسیں لے رہی ہے۔ حکومتی ارباب اور ترجمان ان کے لتّے لے رہے ہیں کوئی بولا کہ اپوزیشن کی 31 جنوری کا سال ابھی نہیں آیا، کسی نے کہا کہ استعفے اب اپنے منہ پر ہی مار لو، غرض ہر حکومتی ترجمان اور غیر جانبدار میڈیا کی جانب سے اپوزیشن خصوصاً تین بڑی جماعتوں کی خُوب بھد اُڑائی جا رہی ہے۔ اپوزیشن کی مایوسی اور درماندگی کا اندازہ اس بات سے لگایا جا سکتا ہے کہ 31 جنوری کے حوالے سے اور حکومتی حلقوں کے طنزیہ تیر و نشتر کے باوجود مریم بی بی کو چُپ لگی ہوئی ہے نہ کوئی بیان نہ کوئی ٹوئیٹ، نہ میڈیا ٹاک، بس ایک خاموشی، یہی حال فضل الرحمن کا ہے کہ اس بارے عجیب سی خاموشی ان کی مایوسی کا اظہار کر رہی ہے۔ ہاں البتہ بلاول کا ایک ٹوئیٹ سامنے ضرور آیا ہے جس کا متن کچھ اس طرح کا ہے کہ جیسے ان کے حکم پر وزیراعظم اور تبدیلی حکومت کے متعینہ تاریخ تک استعفیٰ نہ دینے کی پاداش میں تادیبی کارروائی عمل میں لائی جائیگی۔ کیا کہنے اس خوش فہمی کے لیکن حقیقت یہی ہے کہ اپوزیشن کے سارے اقدامات اُلٹی ہو گئیں سب تدبیریں کچھ نہ دوا نے کام کیا ہوگئے“ اب ان کے سامنے اپنی عزت بچانے کیلئے لانگ مارچ کا ہی خواب رہ گیا ہے لیکن کیا یہ خواب بھی شرمندہ¿ تعبیر ہو سکے گا؟ ۔
ہم نے اپنے گزشتہ کالم میں عرض کیا تھا کہ مقتدرین کی منشاءکے بغیر عمران خان کی حکومت کی وقت سے قبل رخصتی کا کوئی امکان نہیں، غالباً فضل الرحمن نے اس حقیقت کا ادراک کر لیا ہے جب ہی تو انہوں نے اپنے مو¿قف میں تبدیلی کرتے ہوئے واضح کر دیا ہے کہ ان کی اسٹیبلشمنٹ سے کوئی لڑائی نہیں، البتہ شکوہ ہو سکتا ہے اور شکایت اپنوں سے ہی ہوتی ہے۔ فضل الرحمن کا شکوہ اپنی جگہ بجا ہو سکتا ہے کہ گزشتہ دو عشروں سے اقتدار کے مزے لُوٹنے والے مولانا پارلیمان سے بھی باہر ہیں لیکن اس میں اسٹیبلشمنٹ نہیں خود ان کا قصور بھی ہو سکتا ہے کہ ان کا بیٹا تو جیت گیا لیکن وہ اپنے ووٹرز کا اعتماد نہ جیت سکے۔ لگتا ہے ان کے حلقے کے مدرسے کے طلباءنے بھی تحریک انصاف کو ووٹ دیدیئے۔ خیر یہ تو جملہ ہائے ذکر ہیں لیکن مولانا کے اپنی جماعت کے سینئر ارکان و عہدیداران نے بھی عَلم بغاوت بلند کر کے ان کی پریشانیاں بڑھا دی ہیں۔ حافظ حسین احمد کا مولانا کے لیبیا سے فنڈز وصول کرنے اور ذاتی استعمال میں لانے کا بھانڈا پھوڑا جانا اس کی مثال ہے اور اس کی شہادت میں مولانا شیرانی و دیگر اکابرین کی تائید مولانا فضل الرحمان کی پریشانی اور فارن فنڈنگ کیس کی پیش بینی ہیں۔
تحریک انصاف کے فارن فنڈنگ کیس کے الیکشن کمیشن میں التواءپر اپوزیشن کا احتجاج لگتا ہے کہ خود مخالفین کے گلے کا پھندا بنتا نظر آرہا ہے۔ عمران خان نے فارن فنڈنگ کی اوپن انکوائری کا مطالبہ کر دیا ہے اور الیکشن کمیشن کے چیئرمین نے اس کو مان بھی لیا ہے۔ واضح رہے کہ اس حوالے سے دونوں بڑی سیاسی پارٹیوں کےخلاف بھی پٹیشنز الیکشن کمیشن میں ہیں اور اب فضل الرحمن بھی اس جال میں پھنستے نظر آرہے ہیں۔ اپوزیشن کی مثال اب ایسی ہے کہ نمازیں بخشوانے گئے تھے روزے گلے پڑ گئے۔ عمران خان کا سب سے اہم اور مسلسل ایجنڈا مخالفین کی کرپشن، لُوٹ مار اور انہیں قرار واقعی سزائیں دینے کا ہے۔ نیب، ایف آئی اے اور دیگر اداروں کے ذریعے جو کھیل کھیلاجا رہا ہے اب اس میں مخالفین خصوصاً دونوں بڑی سیاسی پارٹیوں اور فضل الرحمن کے گرد گھیراتنگ کرنے کےلئے الیکشن کمیشن اور براڈ شیٹ کے حوالے سے جسٹس (ر) عظمت سعید شیخ، کے یک رکنی کمیشن کو بھی شامل کر لیا گیا ہے۔ عجیب بات یہ ہے کہ جسٹس (ر) عظمت سعید کمیشن کے ٹرم آف ریفرنس میں فیصل شدہ کیسز سرے محل اور حدیبیہ کو ری اوپن کرانے کا ایشو بھی شامل کرایا جا رہا ہے۔ سوچنے کی بات ہے کہ کیا یہ اقدام اعلیٰ عدالتوں کی توہین کے ذمرے میں نہیں آئے گا بلکہ اس طرح حکومت اور اپوزیشن کے درمیان محاذ آرائی، مخالفت اور جمہوری عمل کی پیش رفت میں بھی مزید دشواریوں کا سبب بنے گا۔ ہم اپنے پچھلے کالم میں بھی درخواست کر چکے ہیں کہ حکومت کو اب اپنے تسلسل اور مستقبل میں کامیابی کیلئے کام کرنے کی ضرورت ہے۔ محض مخالفین سے پنگا لینے سے عوامی مقبولیت میں اضافہ نہیں ہو سکتا۔ عوام کی بہتری اور سکون اس کیلئے زیادہ اہم ہیں۔ اپوزیشن تو اپنی سیاسی ناکامیوں کی دلدل میں دھنس کر اپنے مستقبل سے خائف ہے لیکن حکومت کی جا بجا عوامی مسائل سے عدم دلچسپی اس کے مستقبل کیلئے لمحہ¿ فکریہ بن سکتی ہے۔ اپوزیشن اپنے سارے حربے آزما کر ناکام ہو چکی ہے اور اب اس کی نظر ضمنی انتخابات اور سینیٹ الیکشن پر ہے حکومت کی نظام پر کمزور گرفت اور عوام کی مہنگائی، بیروزگاری و امن عامہ کے نقائص کی بنیاد پر اپنا ووٹ بینک بڑھانے کی کوشش یقیناً کر سکتی ہے۔
سینیٹ انتخابات میں گزشتہ کئی عشروں سے ووٹ کے حصول کی مالی منڈیاں لگتی ہیں۔ کروڑوں میں ایک ایک رکن بکتا ہے۔ اس بار بھی یہی کہانیاں چل رہی ہیں اور شنید ہے کہ اس بار اس ریس میں ایک ایک گھوڑے کی قیمت بارہ کروڑ تک پہنچ چکی ہے۔ ادھر 2004ءسے 2017ءتک اراکین قومی و صوبائی کو ڈویلپمنٹ فنڈ دیئے جانے کے مخالف کپتان وزیراعظم نے اپنے اراکین اسمبلیوں کو 50 کروڑ فی کس کے حساب سے دس ارب عین سینیٹ الیکشن سے پہلے دے کر مخالفین کو الزام تراشی کا موقع فراہم کر دیا، دوسری جانب اوپن ووٹنگ کیلئے سپریم کورٹ کے بعد اب آئینی ترمیم کی بات کی جا رہی ہے ترمیم کیلئے دو تہائی اکثریت کی ضرورت ہے جو اپوزیشن کے بغیر ناممکن ہے۔
وزیراعظم اپوزیشن سے بات کرنا تو درکنار، ہاتھ ملانا بھی گوارا نہیں کرتے ان کے وزراءمعاونین اور ترجمان پر وہ تضحیکی زبان استعمال کرتے ہیں جو پارلیمانی تو کیا کسی بھی حوالے سے تہذیب کی تعریف میں نہیں آتی۔ یہی حال شکست خوردہ مخالفین کا بھی ہے۔ اس صورتحال میں ہونا یہی ہے کہ حکومت اپوزیشن کو گندا کرے گی اور اپوزیشن حکومت کےخلاف ہرزہ سرائی کرتی رہے گی سیاست کا کھیل بہت نازک ہے اور اس کھیل میں مسلسل منفی روئیے اور عمل انجام کار بساط لپیٹے جانے کا سبب بن جاتے ہیں۔ عوامی بے چینی اور داخلی صورتحال کے سد باب نہ ہونے کے نتائج کسی کے بھی حق میں نہیں جاتے۔ عوام نے تحریک انصاف اور عمران خان سے بہت امیدیں وابستہ کی ہوئی ہیں۔ خان صاحب کو بھی چاہیے کہ وہ انتقام، مخاصمت و احتساب کے دائرے سے باہر نکلیں اور عوام کے مفادات کیلئے عمل پیرا ہوں۔ کہ کامیابی کی کُنجی یہی ہے اور وزیراعظم کے وژن کی منزل بھی اسی میں ہے۔
الزام در الزام کی سیاست کب تک چلے گی۔ ایسا نہ ہو کہ اپوزیشن کی طرح آپ کی سب تدبیریں بھی اُلٹی ہو جائیں اور بوٹوں کی چاپ سنائی دے۔
٭٭٭