شمیم سیّد،بیوروچیف ہیوسٹن
جس ملک میں انصاف ،مساوات اور منصفانہ قانون وآئین کا تصور ہر فرد کے لئے یکساں ہوتا ہے، وہ ملک اپنے آپ کوجمہوری ملک کہہ سکتاہے۔ اس کے برعکس جس ملک میں اقلیتوں کے خلاف تعصب ونفرت، بغض وعناد، ظلم وبربریت اورامتیاز وتفریق برتی جارہی ہو وہ جنگلوں میں وحشیوں اور درندوں کی طرز زندگی کا بدترین مظہر ہوتا ہے ، یہی وجہ ہے کہ بھارت وحشی جانوروں کی آماجگاہ ہے کہ جہاں انسانیت ختم ہوچکی ہے۔ اگرچہ انگریز جمہوری نظام (Democracy) جو اندر سے سیاہ تر تھاکے بت کو مطلق العنان بادشاہت اور ملوکیت کے جابرانہ نظام کے متبادل قرار دے کرسامنے لائے اور اسے یورپ کی سیاسی حکمرانی کی تاریخ کی پیشانی کا جھومر کہا۔ مگراس کا نقاب جلداترگیا اوراصلی چہرہ سامنے آگیا۔ سوال یہ ہے کہ جمہوریت کیوں بری شئی ہے اس میں آخر خرابی کیا ہے ؟ اس کی بڑی خرابی یہ ہے کہ اس میں جوبھی فیصلے کئے جاتے ہیں وہ صائب الرائے دانشوروں کے قیمتی مشوروں پر نہیں بلکہ اکثریت کی بنیاد پر ہوتے ہیں اس کی آڑ میں پھروہی آمریت اور ڈکٹیٹر شپ نافذ ہوتی ہے جس کے نتیجے میں اپنوں کوتوتحفظ مل جاتا ہے لیکن دوسروں کے حقوق اس طرح سلب کر لیے جاتے ہیںکہ انسانیت چیخ اٹھتی ہے یہی جمہوری نظام کی کرشمہ سازی ہے۔ 26 جنوری 1950ئکوبھارت نے بھی جمہوریت کالبادہ اوڑھا اوراسے کے ساتھ ہی دستور ہند ایک جمہوری دستور کہہ کراس کا نفاذ عمل میں لایا گیا۔مدنی وتعلیمی اور معاشی وسیاسی حقوق کا برابرکا حصہ دار ٹھرایا گیا۔
تحریک خالصتان بھارتی سکھ قوم کی بھارتی پنجاب کو، بھارت سے الگ کر کے ایک آزاد سکھ ملک بنانے کی تحریک ہے۔ بھارتی پنجاب میں سکھ آباد ہیں اور امرتسر میں ان کا صدر مقام ہے۔ 1980ءکی دہائی میں میں خالصتان کے حصول کی مسلح تحریک زوروں پر تھی جس کی قیادت جرنیل سنگھ بھندراوالہ کررہے تھے۔بھارت نے سکھوں کی اس تحریک کو کچلنے کے لئے سکھوں کے مرکزی مذہبی مقام گولڈن ٹمپل پر ایک خونریز فوجی آپریش کیا جس میں بھندراوالہ اپنے پانچ ہزارساتھیوں کے ساتھ ماراگیا یوں اس آپریشن کے ذریعے سکھوں کو خوزدہ کر دیا گیا اور انہوں نے بھارت کے خلاف مسلح جدوجہد ترک کر دی لیکن اس بات میں کوئی شک نہیں کہ سکھ قوم کی اکثریت یعنی80 فیصد سکھ خالصتان کے حامی ہیں اس کے نتیجے میں صرف بھارت سے آزادی حاصل کرکے اپنا الگ ملک قائم اور اپنی ایک الگ شناخت بحال کر کے ہندوﺅں کے ظلم وستم سے نجات پا ناچاہئے ہیں۔ جھوٹ ،فریب ،مکاری ،عیاری ،دھوکہ اوردجل آخر کب تک چلتا رہے گا،بھارت کے نام نہاد یوم جمہوریہ کے موقع پرسکھوں نے خالصتان کاجھنڈا لہرا کر بھارت کوپیغام دیاکہ وہ خالصتان کے مطالبے سے مطلق دست کش اور دستبردار نہیں ہوئے۔ ملکوں کی تقدیریں باشندگان ملک کی خوشحالی پر موقوف ہوا کرتی ہے، اس کا استحکام رعایا کے ساتھ انصاف و مساوات اور اس کے حقوق کے تحفظ اور پاسداری پر مبنی ہوتا ہے ۔
بھارت اقلیتوں کے لئے ایک ایسا قفس بن گیا، خزاں آشنا گلشنوں میں بلبلوں کا رقص کیف ومستی کا رنگ کہاں سے آئے، انسانیت کی لاش پر جمہوریت کا جشن اس کے ساتھ استہزا اور مذاق سے زیادہ حیثیت نہیں رکھتا۔ بھارت کی نام نہاد جمہوریت سے اقلیت سے وابستہ ہرمتنفس واقف ہے وہ اس بات کو پوری طرح سمجھتاہے اورخوب جانتاہے کہ جمہوریت کانعرہ جھوٹ تھااورحقیقت یہ ہے کہ جمہوریت کی ڈفلی کی آڑمیںعملی طور پر بھارت میں فسطائیت نافذ کردی گئی۔ اقلیتوں کے تمام حقوق پامال کئے گئے ،مذہبی یا نسلی امتیازات نے ڈیرے جمالئے اور امتیازی سلوک اور غیر منصفانہ رویے سرچڑھ کربولنے لگے۔ وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ تعصب ،نفرت اور امتیازی سلوک میں اس قدر شدت آتی رہی ہے کہ اس کا پورا ڈھانچہ زیر وزبر ہوکر رہ گیا ہے۔ ملک میں آرایس ایس کے نظریہ نافذ ہوگیا اور ہر ہندوبرہمن نازی ازم کے خاکے میں رنگ بھرنے میں سرگرم ہو گیا۔ بھارت میں25کروڑ مسلمانوں کو حشرات الارض سمجھاگیااورہندو برہمن ان پرمسلط ہوگیا جس کے نفرت آمیز رویے اور تحکمانہ تعصب نے اقلیتوں اور خاص طور پر مسلمانوں کے خلاف ظلم روا رکھا۔
بھارت نے جب جمہوریت کالبادھ اوڑھا توکہاکہ یہ ملک مذہب کی بنیاد پر حکومت نہیں کرے گا،دستورمیں لکھاگیا کہ بھارت میں حکومت کسی بھی مذہب کی نمائندگی نہیں کرے گی اوربھارت کو ایک”سیکولر اسٹیٹ“ قرار دیا گیا ،جہاں ہر مذہب کا احترام ہونا تھااور مذہب کی بنیاد پر کسی قسم کا کوئی امتیازی سلوک نہیں کیا جا نا تھا۔یہ بھی کہاکہ مذہب یا ذات پات کی بنیاد پر کسی شہری کو شہریت کے حقوق سے محروم نہیں کیا جائے گا اور ہر شہری کو ملکی خدمات سے متمتع ہونے اور فائدہ اٹھانے کا پورا موقع ملے گا۔ نام نہاد آئین میں کہا گیاکہ ہر ہندستانی قانون کی نگاہ میں برابر ہے۔ہر شہری کو آزادی رائے، آزادی خیال اور آزادی مذہب حاصل ہے۔ اقلیتوں کو بھی دستور میں ان کا حق دیا گیا ہے کہ وہ اپنے علیحدہ تعلیمی ادارے قائم کریں،اپنی تہذیب وتمدن اور زبان کو قائم رکھیں اور اپنے مذہب کی اشاعت کریں،اس غرض کے لیے اپنی منقولہ وغیر منقولہ جائیداد کا انتظام کریں، ساتھ ہی یہ دعویٰ بھی کی گیا کہ کسی ایسی آمدنی پر ٹیکس دینے کے لئے مجبور نہیں کیا جا سکتا، جو کسی مذہب کی تبلیغ واشاعت پر خرچ کیا جائے دوسرے لفظوں میں اوقاف، مساجد، مدارس کی جائیداد اور ان کی آمدنی پر ٹیکس نہیں لگایا جا سکتا، اسی طرح شخصی آزادی کا تحفظ متعدد دفعات کے ذریعے کیا گیا۔قانون کی خلاف ورزی کرنے پر کسی شخص کو صرف اسی وقت سزا دی جا سکتی ہے کہ لگایا گیا الزام، قانون کی نگاہ میں جرم بھی ہو،چنانچہ کسی شخص کو مقدمہ چلائے اور صفائی پیش کئے بغیر کسی قسم کی سزا نہیں دی جا سکتی۔ بھارت کے اس جھوٹے دستور میں جن خوشنما اور دلربا باتوں کاتذکرہ ہے اس نے اقلیتوں میں مسرتوں کے نغمے بکھیر دئیے اور عوام نے چین و سکون کی سانس لی مگرجلد ہی بھارت کے جمہوری نظام کے چہرے سے نقاب اترگیااور متعصب ہندو کا اصلی چہرہ نمودار ہوگیا۔
٭٭٭