عامر بیگ
پروفیسر ڈاکٹر خالدہ عثمانی ایف آر سی ایس میری سرجری کی پروفیسر اور بڑی دبنگ خاتون تھیں ِاللہ مرحومہ کے رتبے بلند فرمائے کہ جن سے ان دنوں ہر کسے کے ساتھ ڈاکٹر فردوس عاشق اعوان بھی ڈرتی تھیں ،سر گنگا رام ہسپتال کے سرجیکل یونٹ ون کی انچارج اور ایف جے ایم سی کی پرنسپل بھی تھیں، ایک دن ایمرجنسی میں میری ڈیوٹی کے دوران ایک سوکھی سی سولہ سالہ لڑکی آئی جس کا تقریباً ناف سے ایک ہاتھ نیچے تک کا حصہ سڑ گل چکا تھا میں نے مزید وقت برباد کرنے کی بجائے اسے اوپر یونٹ میں شفٹ کروا دیا اور رجسٹرار کو خبر کر دی ،فوری توجہ دی گئی، اگلی صبح میڈم خالدہ عثمانی راو¿نڈ پر آئیں ،میں نے کیس پیش کیا تو مجھے شاباشی دی اور پھر لڑکی سے پوچھ پرتیت شروع ہوئی، لڑکی کسی کے گھر میں ملازمہ تھی، صفیہ کلینک میں سے ادھوری صفائی کروائی گئی تھی جس سے پس پڑ گئی تھی بعد میں کئیر بھی نہیں کی گئی اب حالت یہ کہ نچلے حصے میں میگٹس ( کیڑے ) پڑ گئے تھے جن کو نکالنے کے لیے اوپر تلے دو آپریشن کئے گئے، بہترین قسم کے تھرڈ جنریشن اینٹی بائیوٹکس کی انفیوزن چلتی رہی ،خون میں بھی بیکٹیریا کی مقدار بڑھ چکی تھی ،بچنا محال تھا ،میڈم کا غصہ ساتویں آسمان پر تھا، میڈم اس لڑکی کے رشتہ داروں اور ذمہ داروں پر برس رہی تھیں ۔ہفتہ بھر جان توڑ کوشش کے باوجود اس لڑکی کا ڈیتھ سرٹیفکیٹ بنانا پڑا ،سر گنگا رام میں کام کرنے کے علاوہ میرے دو کلینک تھے ،ایک شاہ کوٹ اور دوسرا گلشن راوی میں ،میٹرنٹی ہوم جہاں آ ئے روز کوئی نہ کوئی صفائی کے لیے آتا تھا لیکن کمائی کے اس سب سے بہترین زریعے کو اس لڑکی کی موت کی وجہ سے ڈی اینڈ سی ( اسقاط حمل کا طریقہ ) سختی سے منع کر دی گئی تھی گو کہ جگہ جگہ صفیہ کلینک کھلے ہوئے تھے جہاں اکثر گاو¿ں سے آئی ہوئی نوجوان لڑکیاں اپنی خالہ کے ساتھ آتی تھیں یہ سلسلہ ازل سے جاری ہے اور ابد تک رہے گا ۔امریکہ میں اس پر اکثر الیکشن کے دوران بحث و تقاریر ہوتی ہیں دنیا جہاں میں اس کی بازگشت ہے آبادی کو کنٹرول کرنے کے بہت سے زرائع استعمال کئے جاتے ہیں ،اس کے باوجود دنیا بھر میں چھ کروڑ اور پاکستان جیسے اسلامی ملک میں اسقاط حمل کے ہر سال تیس لاکھ کیسز کئے جاتے ہیں اور یہ وہ کیسز ہیں جن کا ریکارڈ بھی رکھا جاتا ہے اس کے علاوہ بے شمار کیسز ایسے ہیں جن کا کوئی ریکارڈ میسر نہیں ہے اسکی وجہ سے بے راہ روی کلچر ، سوشل میڈیا پر آزادی نوجوان نسل کی اخلاقی باختگی اور پاکستان میں سب سے زیادہ پورن کا دیکھا جانا اور وقت پر شادی کا نہ ہونا بھی شامل ہے ،ہمارے وقت میں پنجاب یونیورسٹی کے گرلز ہاسٹل میں چھاپہ پڑا تھا جس میں سے ہوشربا مناظر دیکھنے اور سننے کو ملے تھے اب تو پرائیویٹ گرلز ہاسٹلوں کا دور ہے جہاں آئے دن تماشے ہوتے ہیں جسکا عملی مظاہرہ چند دن پہلے ایک نوجوان حاملہ لڑکی کی موت کی صورت میں دیکھنے کو ملا پاکستان میں دس ہزار کے قریب ایسی وارداتیں ہر سال ہوتی ہیں اکثر باہمی رضا مندی لیکن گاو¿ں میں کھیتوں میں بیٹھنے گئی خواتین جبر سے گزرتی ہیں ،عورتوں اور لڑکیوں میں تعلیم کے ساتھ ساتھ جنسی تعلیم کی بھی کمی ہے بیشتر تو مانع حمل ادویات یا کنٹرول بارے معلومات ہی نہیں رکھتیں یا پھر انکی معلومات ناقص ہوتی ہیں ،انزال کے طریقہ بارے تو رسول پاک نے بھی بتایا تھا یہاں امریکہ میں تیرہ چودہ سال کی لڑکیوں کی اکثر مائیں ہر رات تسلی کرتی ہیں کہ انکی بیٹی مانع حمل گولی کھا کر سوئی ہے۔
٭٭٭