رعنا کوثر
جب ہم پاکستان میں ہوتے تھے اور چھوٹے صرف مغربی دنیا کی باتیں سنتے تھے تو خواتین کہتی تھیں کے ہم امریکہ اور یورپ کی خواتین کام نہیں کرتی ہیں بچے نہیں سنبھالتی ہیں اور کھانا نہیں پکاتی ہیں وجہ یہ پیش کی جاتی تھی۔کے ان ممالک میں کھانے پینے کی فراوانی ہے ہر چیز بنی بنائی ملتی ہے۔بازار سے خرید وگھر لاﺅ اور گرم کرکے کھالو۔چاول نہیں چننا پڑتا دال نہیں دھونی پڑتی ہر چیز صاف ستھری، سبزیاں کٹی ہوئی دھلی ہوئی۔فریج میں سے نکالو اور پکاﺅ۔اس کے ساتھ ہی آپ بازار سے آسانی سے پکا پکایا کھانا خریدو اور کھا لو۔بچے بھی شروع س ڈے کیئر میں ڈال دیئے جاتے ہیں اور جب پڑھائی پر کوئی خرچا بھی نہیں ہے۔اس کے علاوہ جب وہ بڑے ہوتے ہیں تو گھر سے نکال دیا جاتا ہے ان کے والدین ان سے کہتے ہیں خود پڑھو لکھو اور اپنا گھر لو ،جب ہم امریکہ آئے تو کچھ باتیں تو صحیح نظر آئیں مگر کچھ غلط بھی تھیں یہاں واقعی کھانے پینے کی فراوانی ہے مگر بہت ساری بنی بنائی چیزیں بھی ملتی ہیں سبزیاں کٹی ہوئی فریز کی ہوئی ملتی ہیں چاول دال نہیں چننا پڑتا۔
اب سے دس سال پہلے تک بہت سستا تھا سب کچھ پیزا یہ اکثر لوگوں کا گزارہ ہوتا تھامگر پھر بھی یہاں کی ماں بھی ایک ماں ہی ہے وہ بچوں کے لیے کھانا بھی بناتی ہے اور بازار جاکر ان کے لیے ہر طرح کی خریداری بھی کرتی نظر آتی ہے۔صبح سے شام تک نوکری کرتی ہے شام ہوتے ہی گھر کے لیے بھاگتی ہے کے کھانا پکانا ہے۔چھوٹے بچوں کو کھلانا ہے مگر صاف کرنا ہے۔کپڑے دھوتے ہیں بے شک یہاں واشنگ مشین ہوتی ہے پھر بھی یہ ایک کام ہوتا ہے۔بچوں کو صرف ڈے کیئر میں نہیں ڈالا جاتا کہ وہاں چھوڑنے سے پہلے صبح کا کام بھی ہوتا ہے۔بچوں کو اٹھانا کپڑے بدلنا۔برش کرانا۔پھر سکول یا ڈے کیئر چھوڑنا۔پھر نوکری سے واپسی پر بچوں کو ان کے سکول سے لینا گھر لاکر کھلانا پلانا نہلانا ہوم ورک کرانا یہ سب اکثر گھرانوں میں عورت کی ذمہ داری ہے۔پھر جب یہی بچے کالج جاتے ہیں تو وہاں کی بھاری فیس کا انتظام کرنا۔ان کے ہوسٹل کا انتظام کرنا۔ان والدین کی ذمہ داری ہے جو معقول تنخواہ پاتے ہیںپھر بچوں کو یہاں اس طرح تربیت دی جاتی ہے کے وہ بہت جلد ذمہ دار ہوجاتے ہیں۔اس لیے خود ہی اپنے رہنے سہنے اور عارضی نوکری کا بندوبست کر لیتے ہیں۔جب تک ان کی پڑھائی ختم نہیں ہوجاتی۔جن والدین کی آمدنی کم ہے وہ ضرور اپنے بچوں کو گورنمنٹ سے قرضہ لے کر پڑھواتے ہیں۔یہ ہے یہاں کی مشکل زندگی جس کو ہم اپنے ملک سے دیکھتے ہیں تو یوں لگتا ہے۔کے یہاں عورت کی زندگی کھانا پکانے کے لیے نہیں ہے۔والدین بھی بچوں کی فکر سے اٹھارہ سال بعد آواز ہوجاتے ہیں۔مگر یہاں بھی ذمہ داریاں بہت ہیں۔ہاں انداز کچھ بدلا ہوا ہے۔عورت یہاں بھی کام کے بوجھ سے آزاد نہیں ہے۔والدین یہاں بھی فکر مند نظر آتے ہیں۔
٭٭٭٭