جاوید رانا، بیوروچیفشکاگو
اللہ رب العزت نے اپنے حبیبﷺ سے وعدہ کیا ہے کہ وہ ان کی اُمت پر اس کے غلط و خلاف انسانیت اعمال پر گزشتہ اُمتوں جیسا عذاب نازل نہیں فرمائے گا۔ شاید یہی وجہ ہے کہ اسلام کے نام پر قائم ہونے والی پہلی مملکت خداداد پاکستان میں انسانیت، مذہب، معاشرت اور تہذیب کےخلاف بدترین اعمال و کردار گزشتہ ادوار کی اُمتوں اور قوموں سے کسی بھی طرح کم نہ ہونے کے باوجود انہیں عذاب اور تباہی سے دوچار نہیں کیا گیا ہے لیکن آخر کب تک؟ برائی کی کوئی شکل یا ہیئت ایسی نہیں جو وطن عزیز میں موجود نہ ہو۔ فحاشی، بدمعاشی، بے ایمانی، لُوٹ مار، غنڈہ گردی اور وہ اعمال جن کے باعث قومیں اور اُمتیں زمین بوس ہوئیں، دنیا کے نقشے سے مٹ گئیں، سبھی کچھ میرے وطن میں نظر آتا ہے۔
کسی بھی قوم کے وقار اور سر بلندی کے بنیادی نکات میں قانون کی علمبرداری، انصاف کی بلا تخصیص فراہمی اور نظام کی شفافیت کو اولین ترجیح شمار کیا جاتا ہے جس طرح گزشتہ پورا ہفتہ ان بنیادی شرائط و نکات کی توہین و استرداد میں گزرا، وہ کسی بھی طرح ایک پُر امن قوم انصاف پروری اور عوام دوستی کا مظہر نہیں ہے۔ سوموار کو اسلام آباد میں قانون کے محافظوں نے جو طوفان بدتمیزی اور توہین انصاف کا ارتکاب کیا اسے کوئی بھی ذی شعور قبول نہیں کر سکتا۔ اسلام آباد میں ڈسٹرکٹ بار کے صدر چودھری حسیب کی قیادت میں وکلاءنے ہائیکورٹ پر بدترین حملہ کر کے چیف جسٹس اطہر من اللہ اور جسٹس محسن اختر کیانی کے دفاتر تاراج کر دیئے۔ اینٹیں، پتھر، ڈنڈے، گملے برسا کر دفاتر کی ہر چیز تباہ کر دی، صرف یہی نہیں ضلع کچہری کو بھی تباہ و برباد کرنے میں کوئی کسر نہیں چھوڑی۔ وجہ یہ بنی ی سی ڈی اے نے 4 جنوری کے ڈسٹرکٹ اینڈ سیشن جج کے احکامات کے مطابق ڈسٹرکٹ کورٹ کے باہر وکیلوں کے غیر قانونی چیمبرز کے انہدام کی کارروائی کی تھی۔ وکلاءکی غنڈہ گردی کی انتہا یہ تھی کہ انہوں نے چیف جسٹس اسلام آباد اور دیگر جج صاحبان کو گزند پہنچانے کی بھی کوشش کی۔ انجام کار چیف جسٹس نے ہائیکورٹ اور اسلام آباد کی تمام عدالتیں غیر معینہ مدت کیلئے بند کرنے کا اعلان کرتے ہوئے متعلقہ بار اور وکلاءکے لائسنس منسوخ کرنے اور قرار واقعی مقدمات و سزاﺅں کا چیف جسٹس سے مطالبہ کر دیا۔
انصاف و قانون کی بالادستی ، بینچ کے باہم اشتراک اور تعلق کا دست نگر ہوتا ہے لیکن صورتحال اس حد تک پہنچ چکی ہے کہ قانون کے رکھوالے وکیل دہشتگردی اور قانون توڑنے کے مافیا کی شکل اختیار کر چکے ہیں خصوصاً سابق چیف جسٹس افتخار محمد چودھری کی بحالی کی تحریک کے بعد سے وکلاءگردی اور قانون کی دھجیاں اُڑانے کےساتھ دنگا فساد، مار کٹائی اور من مانی ان کا شعار بن چکا ہے۔ یاد رہے کہ افتخار محمد چودھری کی بحالی تحریک کے سرخیل، سینئر قانون دان اعتزاز احسن نے تحریک کے بعد ایک گولڈن فقرہ کہا تھا کہ اس تحریک نے متکبر جج اور متشدد وکیلوں کا تحفہ قوم کو دیا ہے۔ محترم منصفین کیلئے تو ہم کچھ نہیں کہہ سکتے کہ توہین عدالت کا خدشہ ہے تاہم ان کے فیصلے بولتے ہیں البتہ وکیلوں کے تشدد اور غنڈہ گردی کے واقعات کا ایک طویل سلسلہ ہے جس میں عام افراد، پولیس اور حکومتی و سیاسی طبقات، ڈاکٹرز، کاروباری و سماجی لوگوں سمیت سب ان کا شکار بنے ہےں۔ وکلاءغنڈہ گردی کی تفصیل میں جائیں تو یہ کالم چھوٹا پڑ جائےگا۔ مختصراً عدالتوں پر حملے دیکھیں تو ملتان کی عدالت کی تباہی اور جج کو زد و کوب کیا جانا، بینکنگ کورٹ کے جج کو ننگا کرنا اور جوتوں، مکوں، ڈنڈوں سے مارنا، لاہور کی ڈسٹرکٹ جج ساجدہ احمد کا کھلا خط چیف جسٹس کے نام کہ کس طرح وکیل حضرات انہیں ننگی گالیاں دیتے اور مغلظات سے بات کرتے ہیں کہ وہ خود کشی کرنے کا سوچتی ہیں اور وکلاءکے اس روئیے سے ملازمت چھوڑنے پر مجبور ہیں۔ گزشتہ دنوں لاہور کی عدالت میں جج پر تشدد اور اس کی ویڈیو کا وائرل ہونا۔ پنجاب انسٹیٹیوٹ آف کارڈیالوجی میں ڈاکٹرز پر حملہ اور توڑ پھوڑ کا ارتکاب بھی کوئی پرانی بات نہیں ہے۔ حیرت اور دُکھ کی بات تو یہ ہے کہ ملتان میں حملے اور چیف جسٹس لاہور کی عدالت کی توڑ پھوڑ و دیگر معاملات کے بعد تصفیہ کی کہانی، حالیہ اسلام آباد کی غنڈہ گردی کے تناظر میں عدالت عظمیٰ کے سربراہ کی جانب سے تصفیہ کا عندیہ بھی سامنے آیا ہے۔ کیا یہ انصاف کی بات ہے کیا وکلاءکیلئے وہ معیار سزا نہیں جو دوسروں کیلئے ہے۔ نظام عدل کے دو معیار کیوں؟
دوہرے معیار تو نظام مملکت و ریاست میں بھی سرایت کئے ہوئے ہیں۔ دور نہ جائیں گزشتہ دنوں ہی اسلام آباد میں کشمالہ طارق کی گاڑی کا اپنے آگے جانے والی گاڑی کو ٹکر مار کر چار معذور نوجوانوں کی ہلاکت کا معاملہ محض اس لئے ایک معمہ بنا دیا گیا ہے کہ کشمالہ طارق صاحب اثر و رسوخ، دولت مند اور ہر دور کے حکمرانوں کی نور نظر اور اس وقت وفاقی محتسب کے عہدے پر فائز ہیں۔ بے شمار چشم دید گواہوں کی شہادت کے باوجود کہ ان کا بیٹا Lexus لینڈ کروزر چلا رہا تھا جس نے مہران کار کو ٹکر ماری اور چار نوجوان ہلاک ہوئے، کشمالہ طارق نے غلط بیانی کرتے ہوئے نہ صرف ڈرائیور کے سر ڈال دیا بلکہ اپنے بیٹے کی ضمانت قبل از گرفتاری کرا لی۔ عجیب بات یہ کہ جس ڈرائیور کو گاڑی چلانے والا ٹھہرایا گیا ہے وہ اس ویڈیو میں نظر ہی نہیں آرہا ہے جو وقوعہ کے حوالے سے وائرل ہوئی ہے جبکہ کشمالہ کا بیٹا بھاگتا ہوا نظر آرہا ہے۔ پولیس نے بھی ایف آئی آر لکھنے میں ازلان طارق کا نام مدعی کے نامزد کے طور پر شامل کرنے کا کمال دکھایا ہے۔ دہرے معیار کی یہ مثالیں واضح کرتی ہیں کہ ہمارے یہاں ترازو کے پلڑے دوہرے معیار سے جڑے ہوئے ہیں، زور آور کیلئے الگ اور کمزور کیلئے علیحدہ معیار ہیں۔
دوہرے معیار کی یہ کہانی ہر شعبہ¿ حیات میں نظر آتی ہے۔ سیاست سے شہریت تک کہیں بھی جھانک لیں، اس کی مثالیں موجود ہیں۔ انتخابات میں ووٹ کے حوالے سے میثاق جمہوریت میں اوپن ووٹ پر اتفاق، اب اپوزیشن کو قبول نہیں، ویکسین لگوانے میں محمد زبیر اور بیٹی و داماد کو فیض پہنچانا جبکہ ابھی ویکسین ہیلتھ ورکرز کو لگائی جانی ہے۔ دوہرے معیار کی ایک اور مثال ہے۔ حد یہ کہ ابھی وزیراعظم اور دیگر حکومتی عمال نے ویکسین نہیں لگوائی ہے۔ صرف یہی نہیں بلکہ ہر شعبے میں جس کی لاٹھی اس کی بھینس کا دور دورہ نظر آتا ہے۔ ہماری عرض یہی ہے کہ اگر اصول اور شفافیت پر یقین رکھنے والے کپتان کے دور میں بھی دوہرے معیار اور انصاف و مساوات کی عدم فراہمی پر قابو نہ پایا جا سکا تو شاید یہ ملک دنیا کے سامنے ایک بنانا ری پبلک کے طور پر ہی پہچانا جائےگا۔ یاد رکھیں دوہرے معیار اور انصاف میں تخصیص کسی بھی ریاست کیلئے سیم قاتل ہی ثابت ہوتے ہیں اور شکست و ریخت کا باعث بنتے ہیں، وکلاءگردی نے اس شعر کو بالآخر سچا بنا دیا ہے!
پیدا ہوئے وکیل تو شیطان نے کہا
لو آج ہم بھی صاحب اولاد ہو گئے
٭٭٭