اسلام آباد:
سپریم کورٹ کے فاضل جج جسٹس عمر عطا بندیال نے ریمارکس دیئے ہیں کہ اچھی جمہوریت کے لیے سیاسی جماعتوں کا مضبوط ہونا ضروری ہے۔
چیف جسٹس گلزار احمد کی سربراہی میں سپریم کورٹ کے بینچ نے سینیٹ انتخابات اوپن بیلٹ سے کرانے کے متعلق صدارتی ریفرنس پر سماعت کی۔
پیپلز پارٹی کے سینیٹر رضا ربانی نے ریفرنس کے خلاف اپنے دلائل میں کہا کہ آرٹیکل 226 میں ترمیم کا بل سینیٹ میں زیر التواء ہے، آرٹیکل 226 کے سینیٹ پر اطلاق نہ ہونے کا آرڈیننس بھی آچکا ہے، 1973 کے آئین میں وزیراعظم اور وزیراعلی کے علاوہ ہر الیکشن خفیہ نہیں تھا۔ اٹھارہوں ترمیم میں وزیراعظم اور وزرائے اعلی کے الیکشن دوبارہ اوپن بیلٹ سے لیے گئے، 1985 میں وزیراعظم اور وزیراعلی کے الیکشن بھی خفیہ ووٹنگ سے کرنے کی ترمیم ہوئی، وزیراعظم کا الیکشن اوپن بیلیٹ سے کرانے کا مقصد پارٹی ڈسپلن تھا۔ اسپیکر اور چیرمین سینیٹ کے الیکشن خفیہ ووٹنگ سے ہوتے ہیں کیونکہ یہ عہدے سیاسی وابستگی سے بالاتر ہوتے ہیں، سیاسی وابستگی سے بالاتر عہدے کے لیے ووٹنگ کا عمل خفیہ رکھا گیا۔
رضا ربانی نے کہا کہ سینیٹ انتحابات اوپن بیلیٹ سے کرانے کی آئین میں کوئی گنجائش نہیں، صوبوں اور سیاسی جماعتوں کے حقوق دو مختلف چیزیں ہیں، سینیٹ وفاقی اکائیوں کے تحفظ کے لیے ہے سیاسی جماعتوں کے لیے نہیں۔ اونچ نیچ کے بعد عدلیہ میں استحکام آگیا ہے لیکن سیاست میں نہیں آسکا، میں نے ساری زندگی اسٹیٹس کو کی مخالفت کی، خفیہ رائے شماری کا حق بھی چھینا گیا تو اراکین اسمبلی ڈیپ سٹیٹ کے ہاتھوں مشکل میں ہوں گے۔
چیف جسٹس نے ریمارکس دیئے کہ وزیراعظم اور وزرائے اعلی کے الیکشن پر آرٹیکل 63-A کا اطلاق بھی ہوتا ہے ، پاکستان کا آئین آئرلینڈ کے دستور سے مماثلت رکھتا ہے، آئرش عدالت کے مطابق ریاست کاسٹ شدہ ووٹ کی مالک ہوتی ہے۔
جسٹس عمر عطا بندیال نے ریمارکس دیئے کہ اچھی جمہوریت کے لیے سیاسی جماعتوں کا مضبوط ہونا ضروری ہے۔ جمہوریت میں انفردای پسند ناپسند اکثریتی رائے پر حاوی نہیں ہوتیں، آپ کیسے کہہ سکتے ہیں کہ انفرادیت کو مضبوط کرنے والا نظام چلنا چاہیے۔ کیا ڈسپلن کی خلاف ورزی کرنے والے نظام کو چلنے دیا جائے گا۔