جاوید رانا، بیوروچیفشکاگو
ہم نے اپنے گزشتہ کالم کو فیض احمد فیض کے شعر یہ داغ داغ اُجالا یہ شب گزیدہ سحر وہ انتظار تھا جس کا یہ وہ سحر تو نہیںپر ختم کیا تھا۔اپنی سطور کالم میں ہم تسلسل سے یہ عرض کرتے رہے ہیں کہ حکومت کو وزیراعظم کے عوامی مفادات کے منشور پر توجہ دینی ہوگی تاکہ رائے عامہ اگلے انتخابات میں تحریک انصاف کی حمایت اور کامیابی کیلئے ہموار ہو سکے۔ وزیراعظم نے گزشتہ ہفتے عوام سے رابطہ کی خوش آئند نشست کی، اس نشست میں جو عوامی رد عمل آیا، وہ فیض صاحب کے متذکرہ بالا شعر کی علامتی تصویر اور ہماری عرضداشتوں کا آئینہ ثابت ہوا۔ ایک خاتون کا یہ شکوہ تو میڈیا اور سوشل میڈیا پر ٹاپ ٹرینڈ ثابت ہوا کہ ہمیں گھبرانے کی اجازت ہی دے دیں۔ وزیراعظم نے خوش اسلوبی سے اس سوال کا جواب دیتے ہوئے نہ صرف ان خاتون سے گھبرانے سے گریز کی اپیل کرتے ہوئے عوامی فلاح کیلئے اقدامات کی تفصیل سے آگاہ کیا بلکہ آئندہ کیلئے اپنے عزم و جدوجہد کا بھی واضح عندیہ دیا، تاہم انہوں نے اس حوالے سے راہ میں حائل دُشواریوں کی نشاندہی کرتے ہوئے کرپٹ، مخالفین، مافیاز، کارٹلز اور اداروں کے درمیان غیر ہم آہنگی کو سدِ راہ قرار دیا ہے۔ اچھی بات یہ ہے کہ ان دُشواریوں کے باوجود وزیراعظم نے عوامی معاملات کو سُلجھانے اور بہتر زندگی گزارنے کے اپنے عزم کا اعادہ کیا۔ اس کی فوری شہادت یوں سامنے آئی کہ اگلے ہی روز وزیراعظم نے کابینہ اراکین، ترجمانوں اور تنظیمی ذمہ داروں کو ہدایت کی کہ وہ چینلز پر بیٹھ کر پی ڈی ایم یا دیگر مخالفین و اینکرز سے بحث یا جھگڑوں سے وقت ضائع کرنے کی بجائے عوام کے مسائل سے نپٹنے پر توجہ دیں اور مہنگائی و دیگر مسئلوں کے حل کیلئے عملی اقدامات کریں۔ حقیقت بھی یہی ہے کہ تبدیلی حکومت کو تین برس ہونے کو آرہے ہیں اور اس سارے وقت میں سب سے زیادہ توجہ مخالفین کو نیچا دکھانے پر ہی مرکوز نظر آئی ہے، نتیجہ یہ کہ پی ٹی آئی کی عوامی مقبولیت کسی حد تک متاثر ہوئی ہے۔ اس کا اندازہ ماضی قریب میں ہونےوالے ضمنی انتخابات کے نتائج سے بخوبی لگایا جا سکتا ہے۔ ہمیں یہ کہنے میں کوئی عار نہیں کہ 2018 میں باریاں لگانے والے خود غرض حکمرانوں سے نجات پانے اور اپنے حالات بہتر بنائے جانے کے پیش نظر عوام نے تحریک انصاف کو اپنا نجات دہندہ سمجھ کر کامیابی سے ہمکنار کیا تھا۔ اس بات میں کوئی شُبہ نہیں کہ موجودہ حکومت نے عوامی بہبود اور ملک کی ترقی و خوشحالی کیلئے متعدد اقدامات کئے ہیں لیکن کیا اقدامات کے ثمرات عام آدمی تک پہنچ سکے ہیں، یہ ایک سوال ہے، جس کا جواب مثبت قرار نہیں دیا جا سکتا۔ رمضان المبارک کے آغاز میں چند روز باقی ہیں، پرائس انڈکس ادارے کے مطابق اشیائے ضروریہ کی قیمتوں میں بے تحاشہ اضافہ ہوا ہے اور ہمارے کاروباری لالچی مزاج کے مطابق رمضان المبارک میں مزید گرانی کے خدشات پیش نظر ہیں۔ یہ وقت کی اہم ضرورت بھی ہے اور مستقبل میں اپنی مقبولیت و کامیابی کا تقاضہ بھی کہ مہنگائی کے جن کو قابو میں رکھنے اور عوام کی زندگی آسان بنانے کیلئے کپتان کی حکومت، عوامی نمائندے اور تنظیمی ذمہ دار اپنی ذمہ داریوں کو بخوبی انجام دیں۔ جہاں تک ان مسترد شدہ، لٹیروں اور مفاد پرست سیاسی مخالفین کو نیچا دکھانے کا معاملہ ہے، وہ ٹاک شوز میں بحث و مباحثہ اور تاویلوں کی بجائے عملی اقدامات اور عوام کو مطمئن کرنے سے زیادہ مو¿ثر و موافق ثابت ہو سکتا ہے اور آئندہ انتخابات میں کامیابی کی کلید بن سکتا ہے۔ انگریزی کا ایک مقولہ ہے، Actions Speak Louder Than Words, مخالفین کا ٹاک شوز، پارلیمان میں الزام تراشیاں، تنقید و جُگت بازی محض اپنی سبقت ثابت کرنا ہی نہیں، ایک سازشی سلسلہ ہے کہ اس حکومت کو قومی و عوامی بہتری کے کاموں سے ہٹا کر نزاعی و فروعی معاملات میں اُلجھائے رکھا جائے۔
مخالفین کا واحد مقصد تو بالکل واضح ہے کہ کسی بھی طرح اس حکومت کو گرا کر دوسری بار مقبولیت و کامیابی کو ناممکن بنایا جا سکے اور وہی پرانے کھلاڑی پھر اپنے اقتدار و کھیل کو شروع کر سکیں جو کرپشن، لُوٹ کھسوٹ، اور مفادات سے عبارت ہو، وقت کا تقاضا ہے کہ کپتان اور اس کے کھلاڑی اس سازش کا ادراک کرتے ہوئے اپنے عمل سے سازشوں کو ناکام و نامراد کریں۔ مخالفین کا جٹھ پی ڈی ایم تو ویسے بھی اب محض کاغذ پر ہی رہ گیا ہے، کہیں کی اینٹ کہیں کا روڑا، بھان متی نے کنبہ جوڑا کے مصداق بنا یہ اتحاد اپنے ہی مفادات کے طوفان میں بہہ کر تنکے بن چکا ہے، مریم و مولانا بیماری کا شکار ہو کر خاموشی کی تصویر بنے ہوئے ہیں۔ سینیٹ کے قائد حزب اختلاف کے تنازعے پر ن لیگ و پی پی پی میں معاملہ شوکاز تک پہنچ گیا ہے۔ باقی جماعتوں کا حال یہ ہے کہ تانگہ بھی نہیں ان کے پارلیمانی ارکان رکشہ میں ہی پورے ہو جاتے ہیں جبکہ اے این پی کو مولوی اور مریم نے کسی قابل ہی نہیں سمجھا ہے۔ گویا کپتان کےخلاف سازشی خود ہی مفاداتی سازش کا شکار ہو چکے ہیں۔
سازشوں کا سلسلہ محض سیاسی مخالفین تک ہی محدود نہیں ہے، اس میں ان مخالفین کے پروردہ بیوروکریٹس، بعض کاروباری طبقات، میڈیا اینکرز و تجزیہ کار اور کچھ ریاستی و انتظامی عوامل بھی شامل ہیں۔ مافیاز، کارٹلز اور بیرونی قوتیں بھی متحرک ہیں۔ کپتان نے بالکل ٹھیک کہا ہے کہ کرپشن اور کرپٹ مافیاز کو وہ اکیلے انجام تک نہیں پہنچا سکتا لیکن اس حقیقت کے باوجود سچے جذبے اور عمل سے عوام و ملک کی بہتری کے اقدامات ہی کامیابی کے ضامن ہوتے ہیںِ ویسے بھی اگلے انتخابات میں اب صرف 26 ماہ ہی رہ گئے ہیں اور 12 ماہ انتخابات کے پروپیگنڈے میں صرف ہونے ہیں۔ اس قلیل مدت میں کپتان کو عمل کرنے کی ضرورت ہے۔
بقول شاعر:
ایسا کچھ کر کے چلو یاں کہ سدا یاد رہو!!!
٭٭٭