سید کاظم رضوی
محترم قارئین کرام آپ کی خدمت میں سید کاظم رضا کا سلام پہنچے آج سوچا کہ آپ سے دل کی کچھ باتیں کی جائیں ہوسکتا ہے آپ میرے خیالات سے متفق نہ ہوں لیکن ہر کسی کا اپنا نقطہ نظر ہوتا ہے اس لیئے لکھنا اور سوچنا جبکہ اپنے دوستوں سے مسائل کو زکر ہونا بہت ضروری ہے۔مملکت پاک کی آزادی کے 37 برس گزر جانے کے بعد بھی ہم لوگ دنیا سے پیچھے جارہے ہیں اور پیچھے کیئے بھی جارہے ہیں جہاں بیرونی سازشیں اور ھندوستان کی پاکستان دشمنی کا ہم کو اوّل روز سے سامنا رہا وہیں ہن کو اپنے ہی لوگوں میں اپنے ہی شھر وں میں اور اب حالت یہ ہے کہ اپنے ہی گھروں میں مسائل کا انبار دکھتا ہے ایسا کیوں ہے جب ایک مملکت مذھب کے نام پر دو قومی نظرئیے کی بنیاد پر وجود میں آءتو ترقی اور معاشرہ مثالی ہونا چاہئے تھا دنیا میں دو ہی ریاستوں کا قیام مذھب کی بنیاد پر ہوا ایک پاکستان اور دوسرا اسرائیل۔۔تو ایسا کیا ہوگیا کہ ہم سے دنیا اپنے اور پرائے سب ہی ناراض لگتی ہے !!کیا وجہ ہے کہ اسرائیل تو دنیا میں پھیل رہا ہے اور اتنا چھوٹا ملک ہوکر بھی ہم کو روزہ افطار کرنے والی کھجوریں تک سپلاءکرتا ہے !! جبکہ پاکستان ایک زرعی ملک ہوکر بھی جس کی معاشی ترقی انحصار زراعت پر ہوتا ہے اور ہونا چاہئیے لیکن ہم اپنے کھانے کی گندم اور غذا میں بھی خودکفیل نہیں ہوپائے اور ہمارا لالچی تاجر اور سیاستدان جب چاہے عوام کے گلے پر مہنگاءکی چھری چلانے پر آمادہ نظر آتا ہے کیا ہم لوگ اتنے خود غرض ہوچکے ہیں کہ ہمارا اس دنیا میں رہنا سہنا اور زندگی کا مقصد صرف اپنی فیملی اور بہن بھائیوں تک ہی محدود رہ گیا ہے اور نفع و نقصان میں سوائے ان رشتوں کے سوچنے کے علاوہ ہمارے پاس کچھ نہیں رہ گیا دراصل جو اسلامی نظام حیات ہمارے پاس قرآن و حدیث کے زریعے اور نبی اکرم صل اللہ علیہ وسلم کی تعلیمات کے زریعے پہنچا ہم اس کو فراموش کر بیٹھے ہیں اگر اسلامی اصولوں کا زکر کیا جائے تو ہم کو دوسری قومیں ان اصولوں پر پابند نظر آئیں گی تاجر کی تجارت میں ایمان داری کا معاملہ ہو ناپ تول کی بات کی جائے تو غیر مسلم ہم کو اس میں اپنوں سے زیادہ بہتر دکھیں گے ہمارے لوگ غیر معیاری اشیاءکو معیاری کا لیبل اور تسلیاں دے کر بیچ ڈالتے ہیں جبکہ اغیار آپ کو مال پسند نہ آنے کی صورت میں قیمت واپسی کی ضمانت دیتے ہیں۔اب اس سے زیادہ اور کس وضاحت کی ضرورت ہوگی جب سنت نبی اکرم صل اللہ علیہ وسلم پر اغیار چل رہے ہیں لیکن اس کی برکات کا فائدہ اٹھا رہے ہیں وہیں مسلمان رمضان کے انتظار میں جب وہ قیمت بڑھا کر من مانے اضافے کرکے مال بنا کر خوش ہونگے جبکہ یورپی اور امریکی بازاروں میں ھندو گر±و سری اسٹور والے مسلمان روزہ داروں کو مفت کھجوریں سودے کے ساتھ دینے کی آفر کے ساتھ نظر آئیں گے تو اب ایسے میں ہم کو سب سے زیادہ خود احتسابی اور خود کو سدھارنے کی ضرورت ہے۔
جب تک ہم فلاح کا دائرہ کار انسانیت تک نہیں بڑھائیں گے ہم کو دنیا کے ساتھ چلنے میں دشواری ہی ہوگی اب وہ وقت گیا جب آپ کسی ملک کو پٹیاں پڑھا کر اور انکا آلہ کار بن کر ڈالر سمیٹ لیتے تھے اب آپ کو خود انحصاری پر کام کرنا ہوگا خوراک اور دیگر شعبہ جات میں اپنے پاﺅں پر کھڑا ہونا سیکھنا ہوگا اگر ایک چھوٹا ملک ہماری آذادی کے بعد آذاد ہونے والے ہم سے بہت آگے جا چکے ہیں تو اس گیدڑ سنگھی کو ہم کو بھی ڈھونڈنا ہی ہوگا جو مشکل نہیں ہے بلکہ بہت ہی آسان ہے بس عمل کی کمی ہے اگر ہم دنیا کو اسلام اور مذھبی اصول سکھانے کے بجائے صرف اپنے اوپر اور اپنے گھر والوں پر ہی لاگو کرلیں جو ہم کر سکتے ہیں تو یہ معاشرہ اور دنیا بہت بدل جائے گی۔
ہم کو سائنس سے مدد لے کر اللہ کی رضا سے ترقی کا دروازہ کھولنا ہوگا پاکستان میں چاول کی کاشت کے بجائے دیگر فصلوں کا متبادل تلاش کرنا ہوگا قیام پاکستان کے وقت ہمارے پاس ایسٹ پاکستان اور ویسٹ پاکستان کی شکل میں بڑا خطہ اور پانی سے مالا مال وسائل تھے چاول کی کاشت امریکہ جیسا ملک پانی کے انتہاءزیادہ استعمال کی وجہ سے نہیں کرتے جبکہ انکے اور روس کے پاس میٹھے پانی کے سب سے بڑے زخائر موجود ہیں ان کی پلاننگ کفایت شعاری اور وسائل کو اپنی نءنسل کے سنبھال کر رکھنے کی سوچ پر مبنی ہے ہمارے محدود زہن صرف آج اچھا جی لو کل کی دیکھی جائے گی پر آج تک چل رہی ہے جو غلط ہے پاکستان کی آبادی کا تناسب دنیا کے گنجان آباد خطوں میں شمار اور وسائل پر پڑتا بوجھ اب انتہاءعروج پر آچکا ہے ہم اپنے ہمسائے ممالک سے تجارتی مقابلہ ہار تے جارہے ہیں جس کی وجہ مہنگی مزدوری ہے اور کسی بھی پروڈکٹ کا زائد خرچہ آنا جس کی بہت سی وجوہات ہیں ہم کب تک امریکہ کبھی چائینہ اور کبھی اور ملک کے کندھے پر رکھ کر اپنی بندوقیں چلائیں گے !!؟؟؟ اب دنیا بدل گءہے امریکہ ہم سے ہزاروں میل دور تھا اور ہے افغان ایڈونچر کے مزے اور نقصانات ہم کو سبق نہ دے سکے چائینہ ہمارے برابر موجود ہے اور آج دوست ہے اگر ان سے تعلقات خراب ہوتے ہیں جو ہونگے یہی ہماری ملکی تاریخ رہی ہے خارجہ تعلقات کے حوالے سے تو کیا ہوگا دما دم مست قلندر ہوگا اس لیے وقت کم اور مقابلہ سخت ہے بہتر ہے قوم کو قیادت کا انتخاب کرنے میں انتہاءاحتیاط سے کام لیں نئے قائدین کا انتخاب کریں جو ملک و قوم سے مخلص ہوں جبکہ ریس میں ہارے ہوئے گھوڑوں کا انتخاب اب چھوڑ دیں اس کے ساتھ ہی بانیان و قائدین کی نسلوں کو بھی ساتھ لیکر چلیں اگر آپ نے آج بھی میرٹ کا قتل عام جاری رکھا اور کوٹے کا پیچھا نہ چھوڑا تو یہ ایک دن آپ کو کوٹھے پر پہنچا کر دم لیگا !!۔
بات تو سچ ہوگی مگر ہوگی بڑی رسواءکی !!!
دعا ہے اللہ پاک پاکستان کے مسائل حل کرنے کیلئے اچھے قائدین اور مخلص لوگوں کو ہمت عطا فرمائے اور یہ لوگ انقلاب لاکر اس ملک و قوم کو ترقی کی راہ پر دوبارہ ڈال سکیں۔ آمین
٭٭٭