ایجنڈا!!!

0
164
عامر بیگ

آنکھوں دیکھا
عامر بیگ

پچھلی حکومتوں میں میڈیا پر حکومتی کارگزاری دکھانے کے لیے ایک کثیر رقم خرچ کی جاتی تھی جس سے میڈیا مالکان بھی خوش تھے ،صحافی شاد اینکرز آباد اور مخالف برباد رہتے تھے ،باتھ روم کی دیواروں سے لیکر میٹرک کی اسناد پر شہباز شریف کی تصاویر لگی ہوتی تھیں ،بارش میں لمبے بوٹ اور ہیٹ پہنے فلائی اوور پر اُلٹے ہاتھ کی شیڈ بنا اندرونی اور بیرونی دوروں کی کوریج کیلئے صحافیوں کی فوج ہم رکاب رہتی تھی جن کا ٹی اے ڈی اے حکومت کے ذمہ ہوتا تھا ،اخباری صفحے بھر بھر کر میاں صاحبان کی تصاویر چھاپی جاتی تھیں جس میں چھوٹے بڑے پراجیکٹ کی تفصیل بھی درج ہوتی تھی ،ان سے پیشتر زرداری صاحب جو صحافی دوست بنانے میں مشہور ہیں وہ بڑے اینکر کے سامنے رعونت سے کہا کرتے تھے کہ اگر فالودے والے کے اکاو¿نٹ میں پیسے پڑے ہیں تو اس میں اسی کا قصور ہے لیکن پھر بھی میڈیا نے اسے ڈارلنگ بنائے رکھا، ن لیگ کے بنائے ہوئے جھوٹے سچے کتنے کیسز میں بری ہوئے ، ایک بھی کرپشن کا داغ ابھی تک اپنے ماتھے پر نہیں لگنے دیا گیا ،مطلب نواز شریف کی طرح کنوکشن نہیں ہوئی وہ پریذیڈنٹ بھی بنا پھر ایم این اے بھی پیپلز پارٹی کا شریک چیئرمین بھی ہے وزیر اعظم اسلامی جمہوریہ پاکستان نے عہدہ چھوڑ دیا کہ اس پر داغ نہ لگے لیٹر نہیں لکھا وہی وزیر اعظم اب سینٹ میں حزب اختلاف کا لیڈر بنا بیٹھا ہے یہ کیسی اندھیر نگری ہے کوئی کچھ بھی بولے میڈیا اسے اچھے لفظوں میں یاد رکھے ہوئے ہے اور اس کام کی قیمت وصول کی جاتی ہے جب دینے والے کھلے دل سے دیں گے تو لینے والوں کو کیونکر اعتراض ہوگا کیوں جھجکے گا جوہر ٹاو¿ن میں چونتیس چھتیس پلاٹ لینے میں کیا امر مانع ہوگا، ان لوگوں کی خبریں بھی لگتی ہیں، ان پر کتابیں بھی لکھی جاتی ہیں اور قصیدے بھی پڑھے جاتے ہیں ،بینظیر دور میں بھی بچے گلیوں میں گاتے پھرتے تھے کہ میرے گاو¿ں میں بجلی آئی ہے۔ یہ سب مفت میں نہیں ہوتا، اس کے لیے حکومت غریب مزدور کے خوب پسینے کی کمائی سے خرچ کرتی ہے مگر موجودہ خان حکومت کئی ایک اچھے کام کرنے کے باوجود میڈیا اس کے پیچھے ہاتھ دھو کر پڑا ہے ،شاید میڈیا کو اشتہارات نہیں مل رہے جیسے پچھلی حکومتوں میں ملا کرتے تھے ملکی اور غیر ملکی دوروں میں کوئی صحافی ساتھ نہیں ہوتا پہلے پہل تو وزیر اعظم کمرشل فلائیٹ سے سفر کرتے تھے اب شاید سکیورٹی رسک کی وجہ سے ایئر فورس کے طیارے میں جاتے ہیں سنا ہے ایک ارب روپیہ مختص کیا گیا ہے اشتہارات کے لیے کہ جس سے حکومتی کارکردگی کو اجاگر کیا جائے گا، اس میں کوئی شک نہیں کہ عمران خان وزیر اعظم بننے سے پہلے بھی ایک سلیبرٹی تھے انکی خبر لگتی تھی مگر اب میڈیا کے منہ کو خون لگا ہوا ہے وہ کیونکر مفت میں حکومتی کارکردگی کو نمایاں کرے گا وہ اسی کو دکھائے گا جو اسے نوازے گا ۔میر شکیل کے الفاظ پر غور کریں کہ وہ چیریٹی نہیں بزنس کرتے ہیں اپوزیشن کے پاس بہت مال ہے عمران خان بچت کرنے کی کوشش میں اپنی کارکردگی کا واویلہ نہیں کر پا رہا جیسا کہ پچھلی حکومتیں کرتی آئی ہیں یا تو پھر سوشل میڈیا کی خدمات حاصل کی جائیں یا خود میڈیا میں آیا جائے اور خود سے بتایا جائے جیسا کہ ہوگو شاویز کیا کرتا تھا وہ ہر شام نیشنل ٹی وی پر بیٹھ کر اپنی کارکردگی سے قوم کو آگاہ کیا کرتا تھا ، ٹیلی فون پر براہ راست آکر کال لینا بھی ایک اچھا اقدام ہے مگر یہ کافی نہیں ہے اس کے لیے مزید بھی کرنے کی ضرورت ہے خان کو بہت سے شہباز گل فواد چوہدری چاہئیں جو اپوزیشن کو لتاڑنے کی بجائے اپنی کارکردگی بتانے میں دلچسپی لیں اگلا الیکشن بھی تو جیتنا ہے ،پانچ سال میں پاکستان کو اسلامی فلاحی ریاست بنانے کا ایجنڈا پورا نہیں ہوگا، ریاست مدینہ بننے میں بھی ایک عرصہ لگا تھا۔
٭٭٭

LEAVE A REPLY

Please enter your comment!
Please enter your name here