گھر گھرستی!!!

0
946
عامر بیگ

 

عامر بیگ

زمانہ طالب علمی سے ہی دیر تک جاگنے کی عادت تھی رات کے پچھلے پہر بھوک لگی تو میں ہوسٹل سے باہر نکلا سردیوں کی یخ بستہ رات قدرے دھند، میں نے غیر ارادی طور پر سگریٹ لائٹر کو پش کر دیا سگریٹ سلگائی تو چھوٹی سوزوکی اور بند شیشوں کی گاڑی کے اندر دھواں اور باہر کی دھند سے دیکھنا محال ہوگیا پر مجھے پرانی انارکلی کے راستے اس قدر یاد تھے کہ اندھیرے میں بھی آنکھیں بند کر کے پہنچ سکتا تھا جیسے ہی میں نے لاہور میوزیم کے پاس بھنگی کی توپ کراس کی تو سامنے روڈ کی بائیں جانب فوگ لائٹ میں سفید سی گٹھڑی پر نظر پڑی پہلے تو میں سمجھا کہ شاید برف باری کی وجہ سے کوئی چھوٹا سا ڈھیرہے پھر یکدم خیال آیا کہ یہ لاہور میں مری کہاں سے آگیا ڈھیری نے حرکت کی ، گاڑی رینگ رہی تھی رکنے میں کوئی تعمل نہیں ہوا ،گاڑی سے نکل کر پاس گیا تو ایک مریل سی بلی جسے کوئی کار یا موٹر سائکل سوار ہٹ کر کے بھاگ گیا تھا ،بلی کے منہ سے عجیب سی آوازیں نکل رہی تھیں یقیناً سخت تکلیف میں ہوگی اور وہ سردی سے کانپ بھی رہی تھی میں گاڑی سے فلور میٹ اٹھا لایا بلی کو اس میں لپیٹا اور ساتھ والی پیسینجر سیٹ کے قدموں میں رکھ دیا ہیٹ کا رخ فلور کی جانب کر کے فین فل سپیڈ پر چھوڑ دیا، کمانڈو جیکٹ سر پر چترالی ٹوپی اور بلیو جینز کے نیچے تھرمل تھوڑی دیر ہی میں میرے صحیح معنوں میں پسینے چھوٹ رہے تھے ۔پرانی انارکلی سے چنے پوڑی اور سوجی کے حلوے کے بعد گرما گرم دودھ خود بھی پیا اور بلی کے لیے بھی لے لیا، ہاسٹل میں بلی کو ہیٹر کے آگے فرش پر گدا ڈال کر گرم دودھ کے ساتھ پینا ڈول پیش کر دی ،بلی نجانے کب سے بھوکی تھی ،گرم دودھ پینے کے بعد اس نے اپنا سر اُٹھایا ماحول سے جب ہم آہنگی ہوچکی تو میری طرف پیار بھرے انداز سے دیکھ کر میاو¿ں کی اور سو گئی صاحب ہم دونوں دیر تک سوتے رہے خیر میرا تو روز کا یہی وطیرہ تھا مگر وہ شاید کئی دنوں کی جگراتی اور ٹھنڈ زدہ تھی پیٹ بھرنے اور آرام میسر آنے پر سکون کی نیند سوئی ہو گی ۔ناشتہ میں کمرے میں ہی منگوا لیتا تھا دودھ اور بریڈ سے اسنے ایک دفعہ پھر بلی کا پیٹ بھراکر میں اسے ایک پرانے سویٹر میں لیپٹ کر ڈاکٹر مظہر صاحب کے پاس لے گیا جو کہ میرے استاد اور ویٹرینری کالج میں سرجری کے پروفیسر تھے ،معائنے کے بعد بولے خرچہ اُٹھے گا فریکچرز ہیں کہاں سے لا ہو میں نے بتایا تو ہنس پڑے ،میری ہاں پر علاج شروع ہو گیا ،بلی رکھ لی گئی ایکسرے ہو ئے ، علاج بھی چلتا رہا ،بلی چند دن لنگڑا کر چلتی رہی ،میرے ساتھ میرے کمرے میں سوتی ،صبح سویرے مجھے بھی جگا دیتی، میں ٹوتھ برش سنبھالے باتھ روم کی طرف چل دیتا اور وہ سامنے گراو¿نڈ میں سیلف فزیوتھراپی کا سیشن مکمل کر کے کمرے کے سامنے آن کھڑی ہوتی اور کینٹین کے لڑکے کا انتظار کرنے لگتی ،دودھ بریڈ سے ناشتہ اور اپنی میڈیسن لینے کے بعد سیر سپاٹے کو نکل جاتی جیسے ہی اسکی حالت بہتر ہوئی اسنے ایک ہٹے کٹے میس کے بلے سے یاری لگا لی اکثر اس کے ساتھ اٹھکیلیوں میں مصروف رہتی پھر وہ میرے کمرے سے غائب رہنے لگی عشق نے بے گھر تو کیا ہی تھا شاید ناشتے اور کھانے پینے سے بھی بے نیاز ہو گئی۔ پر یہ میرا وہم تھا ایک دن وہ مجھے میس کے باہر مل گئی اسی براو¿ن آنکھوں والے سرخ و سفید بلے کے ساتھ میں نے پچکارہ تو میرے پاو¿ں میں لوٹنے لگی، بلے کو شاید برا لگا ہو گا لیکن میں نے اسکا بالکل بھی برا نہیں منایا بلکہ مجھے خوشی ہوئی کہ اسے اتنا پیار کرنے والا ساتھی مل گیا اور سال بھر میں میس منیجربلیوں کی بہتات کی شکایت کرتا ہوا پایا گیا ۔
٭٭٭

LEAVE A REPLY

Please enter your comment!
Please enter your name here